كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((لَا حَسَدَ إِلَّا عَلَى اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ هَذَا الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ))
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صرف دو آدمیوں پر رشک کرنا جائز ہے، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال سے نوازا، وہ اس میں سے دن کی گھڑیوں میں خرچ کرتا ہے، اور وہ آدمی جسے اس نے یہ قرآن دیا، وہ اس کے ساتھ رات کی گھڑیوں اور دن کی گھڑیوں میں قیام کرتا ہے۔‘‘
تشریح :
(1).... حسد کی دو قسمیں ہیں : حقیقی اور مجازی۔ حقیقی یہ ہے کہ کسی نعمت والے سے نعمت کے زوال کی تمنا کرے۔ اس کے حرام ہونے پر اجماع ہے اور مجازی سے مراد رشک ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نعمت کی مثل نعمت کی تمنا کرے، جودوسرے پر ہے، اس سے زوال نعمت کی تمنا کیے بغیر۔ اگریہ دنیاوی امور میں ہو تو مباح اور جائز ہے اور اگر نیکی و اطاعت میں ہو تو مستحب ہے۔ حدیث کے اندر یہ مستحب رشک مراد ہے اور وہ بھی صرف ان دو خوبیوں کی بنیاد پر۔ (شرح صحیح مسلم : 1؍272 (816)۔)
(2) .... عامر بن واثلہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ نافع بن عبد الحارث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عسفان میں ملے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کومکہ کا گورنر مقرر کیا ہوا تھا، فرمایا کہ اہل وادی پر کسے گورنر بنا کر آئے ہو؟ کہا: ابن ابزی کو۔ پوچھا کہ ابن ابزی کون ہے؟ کہا: ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔فرمایا: تو نے ان کے اوپر ایک آزاد کردہ غلام کو اپنا جانشین تعینات کر دیا؟ کہا کہ بے شک وہ اللہ عزوجل کی کتاب کا قاری ہے اور یقینا وہ وراثت کے مسائل جانتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: سنو! بے شک تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقینا اللہ اس کتاب کی وجہ سے کئی قوموں کو بلندی عطا فرما دیتا ہے اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔‘‘( صحیح مسلم : 817۔)
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 423، صحیح ابن حبان : 1؍188، صحیح بخاري: 5025۔
(1).... حسد کی دو قسمیں ہیں : حقیقی اور مجازی۔ حقیقی یہ ہے کہ کسی نعمت والے سے نعمت کے زوال کی تمنا کرے۔ اس کے حرام ہونے پر اجماع ہے اور مجازی سے مراد رشک ہے اور وہ یہ ہے کہ اس نعمت کی مثل نعمت کی تمنا کرے، جودوسرے پر ہے، اس سے زوال نعمت کی تمنا کیے بغیر۔ اگریہ دنیاوی امور میں ہو تو مباح اور جائز ہے اور اگر نیکی و اطاعت میں ہو تو مستحب ہے۔ حدیث کے اندر یہ مستحب رشک مراد ہے اور وہ بھی صرف ان دو خوبیوں کی بنیاد پر۔ (شرح صحیح مسلم : 1؍272 (816)۔)
(2) .... عامر بن واثلہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ نافع بن عبد الحارث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عسفان میں ملے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کومکہ کا گورنر مقرر کیا ہوا تھا، فرمایا کہ اہل وادی پر کسے گورنر بنا کر آئے ہو؟ کہا: ابن ابزی کو۔ پوچھا کہ ابن ابزی کون ہے؟ کہا: ہمارے آزاد کردہ غلاموں میں سے ایک غلام ہے۔فرمایا: تو نے ان کے اوپر ایک آزاد کردہ غلام کو اپنا جانشین تعینات کر دیا؟ کہا کہ بے شک وہ اللہ عزوجل کی کتاب کا قاری ہے اور یقینا وہ وراثت کے مسائل جانتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: سنو! بے شک تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یقینا اللہ اس کتاب کی وجہ سے کئی قوموں کو بلندی عطا فرما دیتا ہے اور اسی کی وجہ سے دوسروں کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔‘‘( صحیح مسلم : 817۔)
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر