كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، ثَنَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ مِخْرَاقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ نَاسًا يَقرأُ أَحَدُهُمُ الْقُرْآنَ فِي لَيْلَةٍ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا؟ فَقَالَتْ: ((أُولَئِكَ قَرَءُوا وَلَمْ يَقْرَءُوا، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ اللَّيْلَةَ التَّمَامَ فِيَقْرَأُ سُورَةَ الْبَقَرَةِ، وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ، وَسُورَةَ النِّسَاءِ، لَا يَمُرُّ بِآيَةٍ فِيهَا اسْتِبْشَارٌ إِلَّا دَعَا وَرَغَّبَ، وَلَا يَمُرُّ بِآيَةٍ فِيهَا تَخْوِيفٌ إِلَّا دَعَا اللَّهَ وَاسْتَعَاذَ))
کتاب
باب
مسلم بن مخراق نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ اے ام المؤمنین! بے شک کچھ لوگ ایسے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک رات میں دو یا تین مرتبہ پورا قرآن پڑھتا ہے۔ فرمایا کہ انہوں نے پڑھا، لیکن نہیں پڑھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام رات قیام فرماتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورۂ بقرہ، سورۂ آل عمران اور سورۂ نساء پڑھتے، پھر خوش خبری والی جس آیت سے بھی گزرتے، تو ضرور دعا کرتے اور رغبت کرتے اور خوف دلانے والی جس آیت سے بھی گزرتے توضرور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے اور پناہ مانگتے۔
تشریح :
(1).... کم از کم کتنی مدت میں قرآن مجید مکمل کیا جائے، اس بارے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کیا ہے:’’فی کم یقرأ القرآن‘‘ اور ساتھ آیت ذکر کی ہے،
﴿ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ﴾(المزمل : 20)
اس کے بعد درج ذیل حدیث ذکر کی ہے، سفیان (بن عینیہ رحمہ اللہ)نے بیان کیا کہ ابن شبرمہ رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے غور کیا کہ آدمی کو قرآن میں سے کتنا کافی ہے، تو میں نے کوئی سورت تین آیات سے کم نہ پائی تو میں نے کہا کہ کسی کے لیے لائق نہیں کہ وہ تین آیات سے کم تلاوت کرے‘‘، پھر ذکر کیا کہ علقمہ سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ کو ملے اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے رات میں سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اسے کافی ہوجائیں گی۔‘‘( صحیح بخاري: 5051۔)
یہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا کہ ابن شبرمہ رحمہ اللہ نے جو موقف اختیار کیا کہ کم از کم تین آیات ضرور پڑھنی چاہئیں، قرآن کی آیت اور حدیث کی رو سے درست نہیں بلکہ دو آیات بھی کافی سمجھی گئی ہیں۔ (فتح الباري: 9؍95۔)
(2) .... سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’سات دن میں قرآن پڑھو اور اس سے زیادہ نہ کرو۔‘‘( صحیح بخاري: 5054، صحیح مسلم : 1159۔)
(3) .... تین راتوں میں پڑھنے کی اجازت بھی آئی ہے۔ سیدنا سعد بن منذر انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں تین راتوں میں قرآن پڑھ لوں ؟ فرمایا: ’’ہاں ‘‘ کہا کہ پھر وہ فوت ہونے تک اسے پڑھا کرتے تھے۔( مسند احمد : 27807، الزهد، ابن مبارك : 1274۔)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سند عمدہ، قوی اور حسن ہے۔ ابن لھیعہ کی تدلیس اور برے حافظے سے ڈر ہے لیکن یہاں اس نے تصریح سماع کر رکھی ہے۔( تفسیر ابن کثیر : 1؍117۔)
(4) .... بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی ایک رات میں پورا قرآن پڑھنے کا ذکر ملتا ہے، جیسا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، سیدنا تمیم داری رحمہ اللہ نیز بعض تابعین جیسا کہ سعید بن جبیر اور علقمہ وغیرہ ہیں۔حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ان آثار کی اسانید صحیح ہیں۔( تفسیر ابن کثیر : 1؍119،120۔)
(5).... امام شافعی رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ رمضان میں، دن رات میں دو قرآن مکمل کر لیتے تھے اور رمضان کے علاوہ ایک قرآن اور امام بخاری رحمہ اللہ نے رمضان میں دن اور رات میں ایک قرأت مکمل کرتے تھے۔( تفسیر ابن کثیر : 1؍121۔)
(6).... بعض سلف سے اس سے کم وقت میں بھی پورا قرآن پڑھنے کا ذکر آیا ہے، حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سلف صالحین سے اس نوعیت کے صحیح واقعات ملتے ہیں یا تو ان کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ اس بارے انہیں وہ حدیث نہیں پہنچی، جس میں تین راتوں سے کم میں قرآن مکمل کرنے کی ممانعت آئی ہے (جس نے اسے تین راتوں سے کم میں پڑھا، اس نے سمجھا نہیں)۔( مسند احمد : 2؍189، 165، سنن ابي داؤد : 1394۔)یا پھر یقینا وہ اس سرعت کے باوجود غوروفکر بھی کر لیتے تھے اور سمجھ بھی لیتے تھے۔( تفسیر ابن کثیر : 1؍121۔)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : پسندیدہ موقف یہ ہے کہ مختلف اشخاص کے اعتبار سے یہ مختلف ہے۔ جس کے پاس دقیق فکر کے ساتھ، لطائف و معارف ہیں وہ اتنا پڑھنے پر اکتفا کرے کہ اسے کمال فہم حاصل ہوجائے۔ اسی طرح جو شخص علم پھیلانے اور دیگر مہمات دین نیز مسلمانوں کی عام مصلحتوں میں مشغول ہے، وہ اتنا پڑھنے پر اکتفا کرے کہ جس سے اس کے ٹارگٹ میں خلل واقع نہ ہو اور جو شخص ان مذکورہ لوگوں میں سے نہیں ہے تو وہ جتنا ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ پڑھ سکتا ہے، اکتاہٹ اور ناپسندیدہ طور پر جلدی پڑھنے کی حد تک نکلے بغیر۔( تفسیر ابن کثیر : 1؍221،222۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 421، مسند احمد : 24609۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح لغیرہ‘‘ کہا ہے۔
(1).... کم از کم کتنی مدت میں قرآن مجید مکمل کیا جائے، اس بارے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کیا ہے:’’فی کم یقرأ القرآن‘‘ اور ساتھ آیت ذکر کی ہے،
﴿ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ﴾(المزمل : 20)
اس کے بعد درج ذیل حدیث ذکر کی ہے، سفیان (بن عینیہ رحمہ اللہ)نے بیان کیا کہ ابن شبرمہ رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے غور کیا کہ آدمی کو قرآن میں سے کتنا کافی ہے، تو میں نے کوئی سورت تین آیات سے کم نہ پائی تو میں نے کہا کہ کسی کے لیے لائق نہیں کہ وہ تین آیات سے کم تلاوت کرے‘‘، پھر ذکر کیا کہ علقمہ سیدنا ابو مسعود رضی اللہ عنہ کو ملے اور وہ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے رات میں سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اسے کافی ہوجائیں گی۔‘‘( صحیح بخاري: 5051۔)
یہاں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت کیا کہ ابن شبرمہ رحمہ اللہ نے جو موقف اختیار کیا کہ کم از کم تین آیات ضرور پڑھنی چاہئیں، قرآن کی آیت اور حدیث کی رو سے درست نہیں بلکہ دو آیات بھی کافی سمجھی گئی ہیں۔ (فتح الباري: 9؍95۔)
(2) .... سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:
’’سات دن میں قرآن پڑھو اور اس سے زیادہ نہ کرو۔‘‘( صحیح بخاري: 5054، صحیح مسلم : 1159۔)
(3) .... تین راتوں میں پڑھنے کی اجازت بھی آئی ہے۔ سیدنا سعد بن منذر انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں تین راتوں میں قرآن پڑھ لوں ؟ فرمایا: ’’ہاں ‘‘ کہا کہ پھر وہ فوت ہونے تک اسے پڑھا کرتے تھے۔( مسند احمد : 27807، الزهد، ابن مبارك : 1274۔)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سند عمدہ، قوی اور حسن ہے۔ ابن لھیعہ کی تدلیس اور برے حافظے سے ڈر ہے لیکن یہاں اس نے تصریح سماع کر رکھی ہے۔( تفسیر ابن کثیر : 1؍117۔)
(4) .... بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی ایک رات میں پورا قرآن پڑھنے کا ذکر ملتا ہے، جیسا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، سیدنا تمیم داری رحمہ اللہ نیز بعض تابعین جیسا کہ سعید بن جبیر اور علقمہ وغیرہ ہیں۔حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ان آثار کی اسانید صحیح ہیں۔( تفسیر ابن کثیر : 1؍119،120۔)
(5).... امام شافعی رحمہ اللہ کے متعلق آتا ہے کہ وہ رمضان میں، دن رات میں دو قرآن مکمل کر لیتے تھے اور رمضان کے علاوہ ایک قرآن اور امام بخاری رحمہ اللہ نے رمضان میں دن اور رات میں ایک قرأت مکمل کرتے تھے۔( تفسیر ابن کثیر : 1؍121۔)
(6).... بعض سلف سے اس سے کم وقت میں بھی پورا قرآن پڑھنے کا ذکر آیا ہے، حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سلف صالحین سے اس نوعیت کے صحیح واقعات ملتے ہیں یا تو ان کو اس بات پر محمول کیا جائے گا کہ اس بارے انہیں وہ حدیث نہیں پہنچی، جس میں تین راتوں سے کم میں قرآن مکمل کرنے کی ممانعت آئی ہے (جس نے اسے تین راتوں سے کم میں پڑھا، اس نے سمجھا نہیں)۔( مسند احمد : 2؍189، 165، سنن ابي داؤد : 1394۔)یا پھر یقینا وہ اس سرعت کے باوجود غوروفکر بھی کر لیتے تھے اور سمجھ بھی لیتے تھے۔( تفسیر ابن کثیر : 1؍121۔)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : پسندیدہ موقف یہ ہے کہ مختلف اشخاص کے اعتبار سے یہ مختلف ہے۔ جس کے پاس دقیق فکر کے ساتھ، لطائف و معارف ہیں وہ اتنا پڑھنے پر اکتفا کرے کہ اسے کمال فہم حاصل ہوجائے۔ اسی طرح جو شخص علم پھیلانے اور دیگر مہمات دین نیز مسلمانوں کی عام مصلحتوں میں مشغول ہے، وہ اتنا پڑھنے پر اکتفا کرے کہ جس سے اس کے ٹارگٹ میں خلل واقع نہ ہو اور جو شخص ان مذکورہ لوگوں میں سے نہیں ہے تو وہ جتنا ممکن ہو، زیادہ سے زیادہ پڑھ سکتا ہے، اکتاہٹ اور ناپسندیدہ طور پر جلدی پڑھنے کی حد تک نکلے بغیر۔( تفسیر ابن کثیر : 1؍221،222۔)