مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 55

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ مَعْمَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ الزُّهْرِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِذَا قَامَ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَإِنَّ الرَّحْمَةَ تُوَاجِهُهُ، فَلَا يُحَرِّكَنَّ الْحَصَى))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 55

کتاب باب سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی ایک نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو بیشک رحمت اس کے سامنے ہوتی ہے، لہٰذا وہ قطعاً کنکری کو حرکت نہ دے۔‘‘
تشریح : (1).... نماز میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے، جس سے توجہ تقسیم ہوتی ہے، یہاں اس کی وجہ بیا ن کی جا رہی ہے کہ رحمت الٰہی نمازی پر اترتی اوراس کی طرف متوجہ ہوتی ہے، اگر وہ کسی اور کام میں مشغول ہو تو یہ اعزاز اور حظ چھن جائے گا۔ (2) .... اس کی ایک اور توجیہ بھی ذکرکی گئی ہے، جیساکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ابو صالح فرماتے ہیں : جب تو سجدہ ریز ہو تو کنکریو ں کو مت چھو، کیوں کہ بے شک ہر کنکری پسند کرتی ہے کہ اس کے اوپر سجدہ کیاجائے۔ (تحفة الأحوذي : 1؍296۔) (3) .... ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کامطلب یہ ہے کہ رحمت کی طرف متوجہ رہنا ہے، کنکریوں کی وجہ سے اس سے توجہ نہیں ہٹانی، چاہے حاجت اور ضرورت ہو، جیسا کہ سجدے والی جگہ کو درست کرنا، یا ضرر رساں چیز کو ہٹانا۔ البتہ امام مالک رحمہ اللہ کے متعلق آیا ہے کہ وہ نماز میں کنکریوں کو درست کر لیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔( تحفة الأحوذي : 1؍296۔) (4) .... کنکریوں کو چھونے کے متعلق دوسری حدیث میں ہے:سیدنا معقیب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں کنکری کو چھونے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو ضرور ہی کرنے والا ہے تو ایک مرتبہ کر لے۔ اس حدیث سے پتہ چلا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا موقف درست نہیں ہے۔
تخریج : الزهد، ابن مبارك : 418، مسند احمد (الفتح الرباني ): 4؍83، سنن ابي داؤد : 945۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔ (1).... نماز میں کوئی بھی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے، جس سے توجہ تقسیم ہوتی ہے، یہاں اس کی وجہ بیا ن کی جا رہی ہے کہ رحمت الٰہی نمازی پر اترتی اوراس کی طرف متوجہ ہوتی ہے، اگر وہ کسی اور کام میں مشغول ہو تو یہ اعزاز اور حظ چھن جائے گا۔ (2) .... اس کی ایک اور توجیہ بھی ذکرکی گئی ہے، جیساکہ مصنف ابن ابی شیبہ میں ابو صالح فرماتے ہیں : جب تو سجدہ ریز ہو تو کنکریو ں کو مت چھو، کیوں کہ بے شک ہر کنکری پسند کرتی ہے کہ اس کے اوپر سجدہ کیاجائے۔ (تحفة الأحوذي : 1؍296۔) (3) .... ابن العربی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس کامطلب یہ ہے کہ رحمت کی طرف متوجہ رہنا ہے، کنکریوں کی وجہ سے اس سے توجہ نہیں ہٹانی، چاہے حاجت اور ضرورت ہو، جیسا کہ سجدے والی جگہ کو درست کرنا، یا ضرر رساں چیز کو ہٹانا۔ البتہ امام مالک رحمہ اللہ کے متعلق آیا ہے کہ وہ نماز میں کنکریوں کو درست کر لیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔( تحفة الأحوذي : 1؍296۔) (4) .... کنکریوں کو چھونے کے متعلق دوسری حدیث میں ہے:سیدنا معقیب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز میں کنکری کو چھونے کے بارے میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو ضرور ہی کرنے والا ہے تو ایک مرتبہ کر لے۔ اس حدیث سے پتہ چلا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا مذکورہ بالا موقف درست نہیں ہے۔