كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنْ لَيْثِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ رَبِّهِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ أَبِي أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعِ بْنِ الْعَمْيَاءِ، وَعَنْ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((الصَّلَاةُ مَثْنَى مَثْنَى تَشَهُّدٌ فِي كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَتَخَشُّعٌ وَتَضَرُّعٌ وَتَمَسْكُنٌ، ثُمَّ تُقْنِعُ يَدَيْكَ، يَقُولُ: تَرْفَعُهُمَا إِلَى رَبِّكَ مُسْتَقْبِلًا بِبُطُونِهِمَا وَجْهَكَ، تَقُولُ: يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَهِيَ خِدَاجٌ))
کتاب
باب
سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نماز دو دو رکعت ہے۔ ہر دو رکعتوں میں تشہد (التحیات)ہے اور تضرع، خشوع اور مسکینی اختیارکرنا ہے۔ پھر تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھا لے، راوی کہتا ہے: ان کو اپنے رب کی طرف اٹھا لے، ان کے اندرونی حصے کا رخ اپنے چہرے کی طرف اے میرے رب! جس نے ایسا نہ کیا تو اس کی نماز ناقص ہے۔‘‘
تشریح :
(1)خشوع و خضوع: .... یہ دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں۔ ایک قول ہے کہ خضوع بدن میں ہوتا ہے اور خشوع آنکھ، بدن اور آواز میں ہوتا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ خضوع ظاہر، جب کہ خشوع باطن میں ہوتا ہے، زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ دونوں ہم معنی ہیں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((لَوْ خَشَعَ قَلْبُهُ لَخَشَعَتْ جَوَارِحُهُ)) (المرقاة بحواله تحفة الاحوذي : 1؍299۔)
’’اگر اس کا دل عاجز ہو گیا تو باقی اعضاء بھی عاجز ہوجائیں گے۔‘‘
یہاں ظاہر و باطن دونوں کے لیے خشوع کا لفظ آیا ہے۔ خشوع نماز کا کمال ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ () الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ﴾ (المؤمنون : 1،2)
’’یقینا کامیاب ہو گئے مومن، وہی جو اپنی نمازمیں عاجز ی کرنے والے ہیں۔‘‘
(2)’’تخشع‘‘: .... میں باب تفعل سے ہونے کی وجہ سے تکلف کامعنی پایا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر اس میں خشوع نہ بھی ہو، وہ بہ تکلیف خشوع پیدا کرے اور خشوع والوں کی سی کیفیت اختیارکرے۔
(3)’’تضرع‘‘:....‘‘النہایہ‘‘ میں ہے کہ تضرع، ذلت اختیارکرنے اور سوال میں مبالغہ اور رغبت کرنے کو کہتے ہیں۔ (تحفة الأحوذي : 1؍299۔) یعنی نماز میں یہ کیفیت طاری کرنی چاہیے۔
(4)تمسکن: .... آدمی کا ذاتی طور پرمسکینی کا اظہار کرنا۔یعنی نماز میں مسکنت کی حالت ہونی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے انتہائی عجز، بے سی اور فروتنی کو پیش کرنا ہے۔
(5)خداج: .... کہتے ہیں جب اونٹنی وقت سے پہلے بچہ پیدا کر دے، یعنی جو شخص حدیث مذکورہ بالا میں موجود کیفیات کی نمازمیں رعایت نہ رکھے،اس کی نماز ناقص ہے۔ علامہ منذری نے ’’الترغیب والترهیب‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ ’’اجر و فضیلت کے اعتبار سے نماز ناقص ہوگی۔‘‘( تحفة الأحوذي : 1؍299۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 404، مسند احمد : 1؍131، نصب الرایة، زیلعي : 2؍145، مسند احمد (الفتح الرباني ): 4؍366، 367، مشکل الآثار، طحاوي : 3؍34، سنن دارقطني : 1؍418، سنن ترمذي: 385، ضعیف الجامع الصغیر : 3512۔
(1)خشوع و خضوع: .... یہ دونوں قریب المعنی الفاظ ہیں۔ ایک قول ہے کہ خضوع بدن میں ہوتا ہے اور خشوع آنکھ، بدن اور آواز میں ہوتا ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ خضوع ظاہر، جب کہ خشوع باطن میں ہوتا ہے، زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ دونوں ہم معنی ہیں، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((لَوْ خَشَعَ قَلْبُهُ لَخَشَعَتْ جَوَارِحُهُ)) (المرقاة بحواله تحفة الاحوذي : 1؍299۔)
’’اگر اس کا دل عاجز ہو گیا تو باقی اعضاء بھی عاجز ہوجائیں گے۔‘‘
یہاں ظاہر و باطن دونوں کے لیے خشوع کا لفظ آیا ہے۔ خشوع نماز کا کمال ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ () الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ﴾ (المؤمنون : 1،2)
’’یقینا کامیاب ہو گئے مومن، وہی جو اپنی نمازمیں عاجز ی کرنے والے ہیں۔‘‘
(2)’’تخشع‘‘: .... میں باب تفعل سے ہونے کی وجہ سے تکلف کامعنی پایا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ اگر اس میں خشوع نہ بھی ہو، وہ بہ تکلیف خشوع پیدا کرے اور خشوع والوں کی سی کیفیت اختیارکرے۔
(3)’’تضرع‘‘:....‘‘النہایہ‘‘ میں ہے کہ تضرع، ذلت اختیارکرنے اور سوال میں مبالغہ اور رغبت کرنے کو کہتے ہیں۔ (تحفة الأحوذي : 1؍299۔) یعنی نماز میں یہ کیفیت طاری کرنی چاہیے۔
(4)تمسکن: .... آدمی کا ذاتی طور پرمسکینی کا اظہار کرنا۔یعنی نماز میں مسکنت کی حالت ہونی چاہیے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے انتہائی عجز، بے سی اور فروتنی کو پیش کرنا ہے۔
(5)خداج: .... کہتے ہیں جب اونٹنی وقت سے پہلے بچہ پیدا کر دے، یعنی جو شخص حدیث مذکورہ بالا میں موجود کیفیات کی نمازمیں رعایت نہ رکھے،اس کی نماز ناقص ہے۔ علامہ منذری نے ’’الترغیب والترهیب‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ ’’اجر و فضیلت کے اعتبار سے نماز ناقص ہوگی۔‘‘( تحفة الأحوذي : 1؍299۔)