كِتَابُ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنْبَأَ عَبْدُ اللَّهِ عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنِي بَكْرُ بْنُ سَوَادَةَ [ص:31] أَنَّ رَجُلًا حَدَّثَهُ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ قَيْسٍ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ الْجُهَنِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ((مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ ثُمَّ صَلَّى صَلَاةً غَيْرَ سَاهٍ وَلَا لَاهٍ، كَفَّرَ عَنْهُ مَا كَانَ قَبْلَهَا مِنْ شَيْءٍ))
کتاب
باب
سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس نے وضو کیا اور اس نے اچھا وضو کیا پھر ایسی نماز پڑھی جس میں نہ بھولا اور نہ کھیلا تو اس سے پہلے اس کی کوئی چیز (خطا)بھی ہوئی، وہ اسے مٹا دے گا۔‘‘
تشریح :
(1).... اس حدیث میں نماز میں خشوع و خضوع اختیارکرنے اور اچھی طرح وضو کرنے کی ترغیب اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ لہٰذا وضو کو اس کے آداب و شروط ملحوظ رکھتے ہوئے صحیح طور پر کیا جائے۔ اہل علم کے وضو کے مسائل میں اختلاف سے رخصت تلاش نہ کرے۔ وضو کے لیے نیت کرے، بسم اللہ پڑھے، کلی کرے، ناک میں مبالغے سے پانی چڑھائے، ناک جھاڑے، سارے سر کا مسح کرے، دونوں کانوں کا مسح کرے، اعضاء کو ملے،لگاتار اور ترتیب سے وضو کرے اور پاک پانی حاصل کرے، اس پر اجماع ہے۔
(2) .... نماز میں بھولا اور نہ کھیلا، باقی روایات میں اس کی وضاحت ہے کہ ((لَا یُحَدِّثُ فِیهِمَا نَفْسَهٗ)) (صحیح مسلم : 226۔) ’’ایسی دو رکعتیں پڑھیں جن میں وہ اپنے آپ سے باتیں نہیں کرتا۔‘‘
دوسری حدیث میں ہے:
((مُقْبِلٌ عَلَیْهِمَا بِقَلْبِهٖ وَوَجْهِهٖ)) (صحیح مسلم : 234۔)
’’اپنے دل اور چہرے کے ساتھ ان دو رکعتوں پر متوجہ رہتا ہے۔‘‘
اس طرح توجہ، انہماک اور کامل ارتکاز سے جو نماز پڑھی جائے گی، اس سے گناہ معاف ہوں گے۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اہل سنت کا مذہب یہی ہے کہ صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں نہ کہ کبیرہ، بلکہ وہ توبہ یا اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل سے معاف ہوتے ہیں۔ (شرح صحیح مسلم : 1؍121۔)
(3) .... مختلف احادیث میں متعدد اعمال کے بارے میں آیا ہے کہ ان سے گناہ معاف ہوتے ہیں، اگر وضو نے گناہ مٹا دیے تو نماز نے کیا مٹایا؟ اگر نماز مٹا دیتی ہے تو جمعے اور رمضان کیا مٹاتے ہیں ؟ اس طرح عاشوراء کا روزہ ایک سال کے گناہ اور عرفہ کے دن کا روزہ دو سالوں کے گناہ مٹاتا ہے، ایسے ہی جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی، اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ؟ اس کا جواب اہل علم نے یہ دیا ہے کہ ان مذکورہ تمام اعمال میں سے ہر ایک گناہوں کو مٹانے کے قابل ہے۔ اگر کسی کے صغیر ہ گناہ ہوں اور ان میں سے کوئی عمل کرے گا تو اس کے صغیرہ معاف کر دئیے جائیں گے اور اگر اس کے نہ صغیرہ ہی ہوں اور نہ کبیرہ تو ایسے عمل سے اس کے لیے نیکیاں لکھی جائیں گی اور درجات بلند کیے جائیں گے اور اگر اس کے صغیرہ نہ ہوں، بلکہ کبیرہ یا کبائر گناہ ہوں تو ایسے عمل سے ہم امید کرتے ہیں کہ اس کے کبیرہ گناہوں میں تخفیف کر دی جائے گی۔ واللہ اعلم(شرح صحیح مسلم 1؍121۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 402، مسند احمد : 17449، مستدرك حاکم : 1؍131۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح لغیره‘‘ قرار دیا ہے۔
(1).... اس حدیث میں نماز میں خشوع و خضوع اختیارکرنے اور اچھی طرح وضو کرنے کی ترغیب اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔ لہٰذا وضو کو اس کے آداب و شروط ملحوظ رکھتے ہوئے صحیح طور پر کیا جائے۔ اہل علم کے وضو کے مسائل میں اختلاف سے رخصت تلاش نہ کرے۔ وضو کے لیے نیت کرے، بسم اللہ پڑھے، کلی کرے، ناک میں مبالغے سے پانی چڑھائے، ناک جھاڑے، سارے سر کا مسح کرے، دونوں کانوں کا مسح کرے، اعضاء کو ملے،لگاتار اور ترتیب سے وضو کرے اور پاک پانی حاصل کرے، اس پر اجماع ہے۔
(2) .... نماز میں بھولا اور نہ کھیلا، باقی روایات میں اس کی وضاحت ہے کہ ((لَا یُحَدِّثُ فِیهِمَا نَفْسَهٗ)) (صحیح مسلم : 226۔) ’’ایسی دو رکعتیں پڑھیں جن میں وہ اپنے آپ سے باتیں نہیں کرتا۔‘‘
دوسری حدیث میں ہے:
((مُقْبِلٌ عَلَیْهِمَا بِقَلْبِهٖ وَوَجْهِهٖ)) (صحیح مسلم : 234۔)
’’اپنے دل اور چہرے کے ساتھ ان دو رکعتوں پر متوجہ رہتا ہے۔‘‘
اس طرح توجہ، انہماک اور کامل ارتکاز سے جو نماز پڑھی جائے گی، اس سے گناہ معاف ہوں گے۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ اہل سنت کا مذہب یہی ہے کہ صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں نہ کہ کبیرہ، بلکہ وہ توبہ یا اللہ تعالیٰ کی رحمت و فضل سے معاف ہوتے ہیں۔ (شرح صحیح مسلم : 1؍121۔)
(3) .... مختلف احادیث میں متعدد اعمال کے بارے میں آیا ہے کہ ان سے گناہ معاف ہوتے ہیں، اگر وضو نے گناہ مٹا دیے تو نماز نے کیا مٹایا؟ اگر نماز مٹا دیتی ہے تو جمعے اور رمضان کیا مٹاتے ہیں ؟ اس طرح عاشوراء کا روزہ ایک سال کے گناہ اور عرفہ کے دن کا روزہ دو سالوں کے گناہ مٹاتا ہے، ایسے ہی جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی، اس کے گذشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ؟ اس کا جواب اہل علم نے یہ دیا ہے کہ ان مذکورہ تمام اعمال میں سے ہر ایک گناہوں کو مٹانے کے قابل ہے۔ اگر کسی کے صغیر ہ گناہ ہوں اور ان میں سے کوئی عمل کرے گا تو اس کے صغیرہ معاف کر دئیے جائیں گے اور اگر اس کے نہ صغیرہ ہی ہوں اور نہ کبیرہ تو ایسے عمل سے اس کے لیے نیکیاں لکھی جائیں گی اور درجات بلند کیے جائیں گے اور اگر اس کے صغیرہ نہ ہوں، بلکہ کبیرہ یا کبائر گناہ ہوں تو ایسے عمل سے ہم امید کرتے ہیں کہ اس کے کبیرہ گناہوں میں تخفیف کر دی جائے گی۔ واللہ اعلم(شرح صحیح مسلم 1؍121۔)