كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، ثَنَا حَبَّانُ، أنبأ عَبْدُ اللَّهِ عَنِ الْمُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، [ص:29] حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَيُسْنِدُ ظَهْرَهُ إِلَى خَشَبَةٍ، فَلَمَّا كَثُرَ النَّاسُ، قَالَ: ((ابْنُوا لِي مِنْبَرًا))، فَبَنَوْا لَهُ مِنْبَرًا، إِنَّمَا كَانَ عُسْرٌ فَتَحَوَّلَ مِنَ الْخَشَبَةِ إِلَى الْمِنْبَرِ، قَالَ: فَحَنَّتْ وَاللَّهِ الْخَشَبَةُ حَنِينَ الْوَالِدِ. قَالَ أَنَسٌ: وَأَنَا وَاللَّهِ فِي الْمَسْجِدِ أَسْمَعُ ذَلِكَ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا زَالَتْ تَحِنُّ حَتَّى نَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمِنْبَرِ، فَمَشَى إِلَيْهَا فَاحْتَضَنَهَا فَسَكَتَتْ فِيهَا الْحَسْرَةُ، وَقَالَ: ((يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ، الْخَشَبُ يَحِنُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَفَلَيْسَ الَّذِينَ يَرْجُونَ لِقَاءَهُ أَحَقَّ أَنْ يَشْتَاقُوا إِلَيْهِ؟))
کتاب
باب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعے والے دن خطبہ ارشاد فرماتے اور اپنی پشت کی ایک لکڑی کے ساتھ ٹیک لگاتے، جب لوگ زیادہ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے لیے منبر بناؤ۔‘‘ تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منبر بنایا۔ وہ محض تنگ دستی کا زمانہ تھا، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکڑی سے منبر کی طرف منتقل ہوگئے، فرمایا: ’’پس وہ رونے لگی، اللہ کی قسم! وہ لکڑی، والد کے رونے کی طرح رونے لگی۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اور میں اللہ کی قسم! مسجد میں تھا، اس کا (رونا(سن رہا تھا، کہا کہ اللہ کی قسم! وہ لگاتار روتی رہی، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے، اس کی طرف چل کر گئے،اسے سینے سے لگایا تو وہ خاموش ہو گئی، اور اس میں حسرت تھی (حسن رحمہ اللہ)نے کہا: اے مسلمانوں کی جماعت! لکڑی کا تنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے رو رہا ہے، تو کیا وہ لوگ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کی امید رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اشتیاق کے زیادہ حق دار نہیں ہیں ؟
تشریح :
(1).... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے بغیر منبر کے خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ بعد میں منبر بنایا گیا، تب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنے کے ساتھ پشت مبارک کی ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے۔ انصار کی ایک عورت کے غلام نے جس کانام میمون تھا اور وہ بڑھئی تھا، منبر بنایا۔
(2) .... منبرکی تین سیڑھیاں تھیں۔ (مسلم بحوالہ فتح الباري: 2؍513، 514۔) اور یہ مروان کے زمانے تک تین ہی رہیں، بعد ازاں اس نے تین مزید سیڑھیاں نیچے والی جانب بڑھا دیں، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے جیسا کہ زبیر بن بکار نے ’’أخبار المدینۃ‘‘ میں ذکر کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں اپنے عامل مروان کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ منبر ان کی طرف روانہ کر دے، اس کے حکم سے جب منبر اکھاڑا گیا تو مدینہ تاریکی میں ڈوب گیا، مروان نکلا اور خطبہ دیا اور کہا کہ مجھے امیر المؤمنین نے ہی حکم دیا کہ اسے بلند کروں، سو بڑھئی کو بلایا اس میں تین سیڑھیوں کا اضافہ کر دیا، جیسا کہ آج بھی ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ سورج کو گرہن لگ گیا، یہاں تک کہ ہم نے ستارے دیکھے اور اس نے کہا کہ لوگوں کی کثرت کے باعث اس میں اضافہ کیا ہے۔( فتح الباري: 2؍512، 513۔)
(3) .... 654ہجری میں مسجد نبوی میں احتراق ہوا تو یہ منبر بھی جل گیا، پھر یمن کے حکمران المظفر نے 656ہجری میں نیا منبر بنوایا، پھر بیبرس نے دس سال بعد ایک اور منبر بھیجا تو المظفر کے منبر کو ہٹا دیا گیا۔ بعد ازاں ملک مؤید نے 820 ہجری میں نیا منبر بھیجا اور اس سے قبل وہ 818 ہجری میں مکے کی طرف بھی نیا منبر بھیج چکے تھے۔( فتح الباري: 2؍513۔)
(4) .... منبر کی لکڑی: غابہ، جو شام کی طرف، مدینہ کے عوالی ہیں، ایک جگہ کا نام ہے، بحرین میں ایک بستی کو بھی ’’غابہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اصل میں غابہ گھنے درختوں کے جھنڈ کو کہتے ہیں۔ اس جگہ میں واقع جھاؤ کے درخت کی لکڑی سے منبر تیار کیا گیا تھا۔
(5(جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ ارشاد فرمانے لگے تو یہ تنا، جسے ایک طرف رکھ دیا گیا تھا، رونے لگا، یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور علامات نبوت میں سے ہے۔ تنے کے رونے کی مختلف تفصیلات آئی ہیں : بعض روایات میں ہے کہ دس ماہ کی حاملہ اونٹنی کی طرح رونے لگا، بعض میں ہے کہ بچے کے چلانے کی طرح رونے لگا، بعض میں ہے کہ ایسی اونٹنی کی طرح رونے لگا کہ جس سے اس کا بچہ چھین لیا گیا ہو، بعض میں ہے کہ باپ کے رونے کی طرح، بعض میں ہے کہ بیل کے آواز نکالنے کی طرح آواز نکالی۔ بعض میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے آگے بڑھ گئے تو اس نے بیل کی آواز نکالی، وہ پھٹ گیا اور شکاف زدہ ہو گیا۔( فتح الباري: 6؍737۔)
(6).... بعد ازاں جب مسجد منہدم کی گئی تو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اسے پکڑ لیا اورپھر انہیں کے پاس رہا، یہاں تک کہ بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہو گیا، پھر اسے دفن کر دیا گیا۔
(7) .... مسند دارمی کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تنے سے خطاب کر کے فرمایا: تو انتخاب کر لے کہ میں تجھے اسی جگہ گاڑ دیتا ہوں، جہاں تو اگا تھا، پھر تو جیسا تھا ویسا ہی ہو جائے گا (تنا بننے سے پہلے جیسا تھا(اور اگر تو چاہے تو میں تجھے جنت میں گاڑ دیتا ہوں، اس کی نہروں سے تجھے پانی پلایا جائے گا،تیرا اگنا اچھا ہوگا، تو پھل اگائے گا، اور اللہ کے ولی تجھ سے کھائیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے پسند کیا کہ میں اسے جنت میں گاڑ دوں۔ اس روایت میں اور اس جیسی دیگر روایات کے متعلق امام بیہقی نے فرط عقیدت کہہ کرضعف کا اشارہ دیا ہے۔( فتح الباري: 6؍737۔)
(8).... اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ جمادات کے اندر بھی فہم و ادراک پیدا فرما دیتا ہے، جس طرح کے جان داروں میں ہے، بلکہ ان سے بھی اشرف، قرآن مجید میں ہے:
﴿ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ﴾(الأسراء : 44)
’’اور کوئی چیز بھی نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔‘‘
(9) .... ’’مناقب شافعی‘‘ میں ہے کہ عمرو بن سواد نے بیان کیا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: اللہ نے جو معجزات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے وہ کسی اور نبی کو نہیں دیے۔ میں نے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے والا معجزہ دیا۔ امام شافعی نے فرمایا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوتنے کے رونے والا معجزہ دیا، یہاں تک کہ اس کے رونے کی آواز بھی سنائی دی گئی، یہ معجزہ اس سے بڑا ہے۔ (فتح الباري: 6؍738۔)
(10)اہل ایمان کی محبت، شوق ملاقات اور آرزوئے وصل کا کیا عالم ہونا چاہیے جیسا کہ حسن بصری رحمہ اللہ بے ساختہ رو پڑے اور اس بارے توجہ دلائی اور اللہ تعالیٰ کا دیدار اور ملاقات سب سے بڑی چیز ہے۔
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
لیکن تو میرا شوق، میرا انتظار دیکھ
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 361، مسند دارمي المقدمة : 1؍25 (42)، تاریخ بغداد : 11؍161، 12؍486، مجمع الزوائد، هیثمي : 12؍182، طبراني کبیر : 2؍182، طبقات ابن سعد : 1؍251، مسند أحمد : 13363۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1).... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے بغیر منبر کے خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ بعد میں منبر بنایا گیا، تب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنے کے ساتھ پشت مبارک کی ٹیک لگا کر کھڑے ہوتے۔ انصار کی ایک عورت کے غلام نے جس کانام میمون تھا اور وہ بڑھئی تھا، منبر بنایا۔
(2) .... منبرکی تین سیڑھیاں تھیں۔ (مسلم بحوالہ فتح الباري: 2؍513، 514۔) اور یہ مروان کے زمانے تک تین ہی رہیں، بعد ازاں اس نے تین مزید سیڑھیاں نیچے والی جانب بڑھا دیں، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے جیسا کہ زبیر بن بکار نے ’’أخبار المدینۃ‘‘ میں ذکر کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مدینہ میں اپنے عامل مروان کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ منبر ان کی طرف روانہ کر دے، اس کے حکم سے جب منبر اکھاڑا گیا تو مدینہ تاریکی میں ڈوب گیا، مروان نکلا اور خطبہ دیا اور کہا کہ مجھے امیر المؤمنین نے ہی حکم دیا کہ اسے بلند کروں، سو بڑھئی کو بلایا اس میں تین سیڑھیوں کا اضافہ کر دیا، جیسا کہ آج بھی ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ سورج کو گرہن لگ گیا، یہاں تک کہ ہم نے ستارے دیکھے اور اس نے کہا کہ لوگوں کی کثرت کے باعث اس میں اضافہ کیا ہے۔( فتح الباري: 2؍512، 513۔)
(3) .... 654ہجری میں مسجد نبوی میں احتراق ہوا تو یہ منبر بھی جل گیا، پھر یمن کے حکمران المظفر نے 656ہجری میں نیا منبر بنوایا، پھر بیبرس نے دس سال بعد ایک اور منبر بھیجا تو المظفر کے منبر کو ہٹا دیا گیا۔ بعد ازاں ملک مؤید نے 820 ہجری میں نیا منبر بھیجا اور اس سے قبل وہ 818 ہجری میں مکے کی طرف بھی نیا منبر بھیج چکے تھے۔( فتح الباري: 2؍513۔)
(4) .... منبر کی لکڑی: غابہ، جو شام کی طرف، مدینہ کے عوالی ہیں، ایک جگہ کا نام ہے، بحرین میں ایک بستی کو بھی ’’غابہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اصل میں غابہ گھنے درختوں کے جھنڈ کو کہتے ہیں۔ اس جگہ میں واقع جھاؤ کے درخت کی لکڑی سے منبر تیار کیا گیا تھا۔
(5(جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر خطبہ ارشاد فرمانے لگے تو یہ تنا، جسے ایک طرف رکھ دیا گیا تھا، رونے لگا، یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور علامات نبوت میں سے ہے۔ تنے کے رونے کی مختلف تفصیلات آئی ہیں : بعض روایات میں ہے کہ دس ماہ کی حاملہ اونٹنی کی طرح رونے لگا، بعض میں ہے کہ بچے کے چلانے کی طرح رونے لگا، بعض میں ہے کہ ایسی اونٹنی کی طرح رونے لگا کہ جس سے اس کا بچہ چھین لیا گیا ہو، بعض میں ہے کہ باپ کے رونے کی طرح، بعض میں ہے کہ بیل کے آواز نکالنے کی طرح آواز نکالی۔ بعض میں ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے آگے بڑھ گئے تو اس نے بیل کی آواز نکالی، وہ پھٹ گیا اور شکاف زدہ ہو گیا۔( فتح الباري: 6؍737۔)
(6).... بعد ازاں جب مسجد منہدم کی گئی تو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اسے پکڑ لیا اورپھر انہیں کے پاس رہا، یہاں تک کہ بوسیدہ اور ریزہ ریزہ ہو گیا، پھر اسے دفن کر دیا گیا۔
(7) .... مسند دارمی کی حدیث ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تنے سے خطاب کر کے فرمایا: تو انتخاب کر لے کہ میں تجھے اسی جگہ گاڑ دیتا ہوں، جہاں تو اگا تھا، پھر تو جیسا تھا ویسا ہی ہو جائے گا (تنا بننے سے پہلے جیسا تھا(اور اگر تو چاہے تو میں تجھے جنت میں گاڑ دیتا ہوں، اس کی نہروں سے تجھے پانی پلایا جائے گا،تیرا اگنا اچھا ہوگا، تو پھل اگائے گا، اور اللہ کے ولی تجھ سے کھائیں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے پسند کیا کہ میں اسے جنت میں گاڑ دوں۔ اس روایت میں اور اس جیسی دیگر روایات کے متعلق امام بیہقی نے فرط عقیدت کہہ کرضعف کا اشارہ دیا ہے۔( فتح الباري: 6؍737۔)
(8).... اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ جمادات کے اندر بھی فہم و ادراک پیدا فرما دیتا ہے، جس طرح کے جان داروں میں ہے، بلکہ ان سے بھی اشرف، قرآن مجید میں ہے:
﴿ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ﴾(الأسراء : 44)
’’اور کوئی چیز بھی نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے۔‘‘
(9) .... ’’مناقب شافعی‘‘ میں ہے کہ عمرو بن سواد نے بیان کیا کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا: اللہ نے جو معجزات محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے وہ کسی اور نبی کو نہیں دیے۔ میں نے کہا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو مردے زندہ کرنے والا معجزہ دیا۔ امام شافعی نے فرمایا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوتنے کے رونے والا معجزہ دیا، یہاں تک کہ اس کے رونے کی آواز بھی سنائی دی گئی، یہ معجزہ اس سے بڑا ہے۔ (فتح الباري: 6؍738۔)
(10)اہل ایمان کی محبت، شوق ملاقات اور آرزوئے وصل کا کیا عالم ہونا چاہیے جیسا کہ حسن بصری رحمہ اللہ بے ساختہ رو پڑے اور اس بارے توجہ دلائی اور اللہ تعالیٰ کا دیدار اور ملاقات سب سے بڑی چیز ہے۔
مانا کہ تیری دید کے قابل نہیں ہوں میں
لیکن تو میرا شوق، میرا انتظار دیکھ