كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ عَيَّاشٍ، ثَنَا عَمْرُو بْنُ قَيْسٍ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ بُسْرٍ، صَاحِبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْعَمَلِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: ((لَا يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ))
کتاب
باب
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تیری زبان ہمیشہ اللہ عزوجل کے ذکر سے تر رہے۔‘‘
تشریح :
(1).... اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بہت زیادہ ذکر کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کی تعریف فرمائی ہے، ارشاد ربانی ہے:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا () وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴾(الأحزاب : 41،42)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کو یاد کرو، بہت یاد کرنا اور اس کی تسبیح کرو، پہلے پہر اور پچھلے پہر۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا:
﴿ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (الجمعۃ : 10)
’’اور اللہ کا بہت ذکر کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾ (الأحزاب : 35)
’’اور اللہ کا بہت ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں،ان کے لیے اللہ نے بڑی بخشش اور بہت بڑااجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ﴾ (آل عمران : 191)
’’وہ لوگ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں۔‘‘
(2) .... نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ’’اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اورجو یاد نہیں کرتا، زندہ اور مردہ شخص کی مثال ہے۔‘‘ (صحیح بخاري: 6407، صحیح مسلم : 779۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جیسا وہ مجھ سے گمان رکھے، اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے جی میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر کسی مجلس میں میر اذکر کرتا ہے تو میں ایسی مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں، جو ان سے بہتر ہوتی ہے، یعنی فرشتوں کی مجلس۔‘‘( صحیح بخاري: 7537، صحیح مسلم : 2675۔)
نیز فرمایا: ’’مُفَرِّدُوْن‘‘ ’’سبقت لے گئے۔‘‘ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ’’مُفَرِّدُوْن‘‘ کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کو بہت یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔‘‘( صحیح مسلم : 2676۔)
(3) .... یہ بات یقینی طور پر معلوم ہے کہ بے شک اللہ عزوجل نے مسلمانوں پر دن رات میں پانچ اوقات میں نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے ساتھ اپنا ذکر فرض کر دیا ہے۔ ان فرائض کے ساتھ ساتھ نفل ذکر بھی مشروع فرمایا ہے۔ یہ نفل فرض نمازوں سے زائد اور اضافی ذکر ہے، اس کی دو قسمیں ہیں، وہ ذکر جو نماز کی جنس سے ہے۔ اس سے مراد وہ سنتیں ہیں جو پانچوں نمازوں سے پہلے یا بعد، یا پہلے اور بعد پڑھنی ہیں۔ اگر فرض میں کمی رہ گئی تو ان نوافل سے پوری کر دی جائے گی اور اگر کمی نہ ہوئی تو نوافل اضافی ہوں گے۔ نماز وں کے اوقات میں سے زیادہ وقفہ عشا اور فجر کے نیز فجر اور ظہر کے درمیان ہے کہ جہاں درمیان میں کوئی فرض نماز نہیں ہے۔ ان کے درمیان نفل نماز مشروع کر دی گئی تاکہ ذکر سے غفلت کا وقت زیادہ طویل نہ ہو، چنانچہ نماز عشاء اور فجر کے درمیان نماز وتر اور قیام اللیل مشروع کیا اور نماز فجر اور ظہر کے درمیان نماز چاشت کو مشروع کیا۔ ان میں سے بعض نمازیں بعض کی نسبت زیادہ تاکید والی ہیں۔ سو نماز وتر کی تاکید زیادہ ہے، اسی لیے علماء کا اس کے وجوب کے بارے اختلاف ہے۔ پھر قیام اللیل کا درجہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر و حضر میں اس پر دوام کرتے، پھر نماز چاشت ہے، اس طرح سورج ڈھلنے کے بعد والی نماز کی ترغیب بھی وارد ہوئی ہے۔
(4) .... زبان کے ساتھ ذکر: یہ تمام اوقات میں مشروع ہے اور بعض میں تاکید ہے۔جن اوقات میں ذکر کی تاکید ہے،وہ فرض نمازوں کے بعد ہے۔ ہر نماز کے بعد سو مرتبہ سبحان اللہ۔ الحمد للہ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ پڑھے۔ وہ دو نمازیں جن کے بعد کوئی نفل نہیں ہوتے یعنی فجر اور عصر ان کے بعد بھی ذکر مستحب ہے۔ فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک ذکر مشروع ہے۔ ذکر کے لیے یہ دونوں وقت پورے دن کے افضل اوقات میں سے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان دو وقتوں میں اپنا ذکر کرنے کا متعددد مقامات پر حکم دیا ہے۔
﴿ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ﴾ (طٰہٰ : 130)
’’اور سورج طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ﴾(الروم : 17)
’’پس اللہ کی تسبیح ہے، جب تم شام کرتے ہو او ر جب صبح کرتے ہو۔‘‘
واضح رہے کہ ان دو وقتوں میں جو سب سے افضل ذکر کیا جاتا ہے، وہ نماز فجر اور نماز عصر کی ادائی ہے اور یہ دونوں نمازیں باقی نمازوں سے افضل ہیں۔
(5).... مطلق ذکر: اس میں نماز، تلاوت قرآن، قرآن سیکھنا، سکھانا اور علم نافع شامل ہیں، جیسا کہ تسبیح،تکبیر اور تہلیل اس میں داخل ہیں۔
(6).... انسان رات کی گھڑیوں اور دن کے لمحات میں جو امور دین و دنیا سرانجام دیتا ہے، ان میں اکثر اللہ کے نام سے شروع ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ کھانے، پینے، لباس پہننے، ہم بستر ہونے، گھرمیں داخل ہونے، باہر نکلے، سواری پر سوار ہونے کے وقت، بسم اللہ اور الحمد للہ کہنا مشروع ہے۔ اس طرح قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینا مسنون ہے۔
الحمد للہ کہنا چاہیے جب: چھینک ماریں، دین و دنیا کے بارے کسی کو مصیبت میں مبتلا دیکھیں، جب بھائی آپس میں ملیں اور ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کریں، کسی نعمت کے ملنے اور شر کے دفعیے پر، اس سے بھی زیادہ کامل حمد الٰہی یہ ہے کہ خوشی،غم، سختی، آسودگی، نیز ہرحالت میں اللہ کی حمد کرے۔
(7) .... آدمی کو چاہیے کہ دعا کرے، جب: بازار میں داخل ہو، جب رات کو مرغوں کی آواز سنے، جب بجلی کڑکے، بارش اترے، تندو تیز ہوائیں چلیں، جب پہلی رات کا چاند دیکھے اور جب موسم کا پہلا پھیل دیکھے۔
(8).... اسی طرح اللہ کا ذکر اور دعا کرے، جب: کوئی مصیبت آن پڑے، دنیوی حادثے سے دوچار ہوجائے، سفر پر نکلتے وقت، دوران سفر منزلوں پر اترتے وقت اور سفر سے لوٹتے وقت۔
(9) .... اسی طرح اللہ کی پناہ مانگے، جب: غضب ناک ہو، بر اخواب دیکھتے وقت، رات کے وقت کتوں اور گدھوں کی آواز سنتے وقت۔
(10).... ایسے ہی استخارہ مشروع ہے، جب ایسے کام کا عزم کرے جس میں خیر و بھلائی ظاہر نہ ہو رہی ہو۔
(11).... نیز اللہ تعالیٰ سے چھوٹے بڑے گناہوں کی توبہ اور استغفار واجب ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ﴾ (آل عمران : 135)
’’اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، تو اللہ کو یاد کرتے ہیں پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں۔‘‘
جس نے اس کی محافظت کر لی، تمام احوال میں اس کی زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے گی۔( جامع العلوم والحکم، ابن رجب حنبلی: 50۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 328، سنن ابن ماجة: 3793، سنن ترمذي: 3375، مستدرك حاکم : 1؍495،مسند احمد (الفتح الرباني ): 14؍203، صحیح ابن حبان : 2؍129، (الموارد(: 576، حلیة الأولیاء، ابو نعیم : 9؍51، جامع العلوم والحکم، ابن رجب : 50۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1).... اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو بہت زیادہ ذکر کرنے کا حکم دیا ہے اور ان کی تعریف فرمائی ہے، ارشاد ربانی ہے:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا () وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا ﴾(الأحزاب : 41،42)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کو یاد کرو، بہت یاد کرنا اور اس کی تسبیح کرو، پہلے پہر اور پچھلے پہر۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا:
﴿ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ (الجمعۃ : 10)
’’اور اللہ کا بہت ذکر کرو تاکہ تم فلاح پاجاؤ۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا﴾ (الأحزاب : 35)
’’اور اللہ کا بہت ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں،ان کے لیے اللہ نے بڑی بخشش اور بہت بڑااجر تیار کر رکھا ہے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ﴾ (آل عمران : 191)
’’وہ لوگ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں۔‘‘
(2) .... نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: ’’اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اورجو یاد نہیں کرتا، زندہ اور مردہ شخص کی مثال ہے۔‘‘ (صحیح بخاري: 6407، صحیح مسلم : 779۔)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث قدسی بیان فرمائی: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں، جیسا وہ مجھ سے گمان رکھے، اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ اگر وہ اپنے جی میں مجھے یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر کسی مجلس میں میر اذکر کرتا ہے تو میں ایسی مجلس میں اس کا ذکر کرتا ہوں، جو ان سے بہتر ہوتی ہے، یعنی فرشتوں کی مجلس۔‘‘( صحیح بخاري: 7537، صحیح مسلم : 2675۔)
نیز فرمایا: ’’مُفَرِّدُوْن‘‘ ’’سبقت لے گئے۔‘‘ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ’’مُفَرِّدُوْن‘‘ کون ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کو بہت یاد کرنے والے مرد اور کثرت سے یاد کرنے والی عورتیں۔‘‘( صحیح مسلم : 2676۔)
(3) .... یہ بات یقینی طور پر معلوم ہے کہ بے شک اللہ عزوجل نے مسلمانوں پر دن رات میں پانچ اوقات میں نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے ساتھ اپنا ذکر فرض کر دیا ہے۔ ان فرائض کے ساتھ ساتھ نفل ذکر بھی مشروع فرمایا ہے۔ یہ نفل فرض نمازوں سے زائد اور اضافی ذکر ہے، اس کی دو قسمیں ہیں، وہ ذکر جو نماز کی جنس سے ہے۔ اس سے مراد وہ سنتیں ہیں جو پانچوں نمازوں سے پہلے یا بعد، یا پہلے اور بعد پڑھنی ہیں۔ اگر فرض میں کمی رہ گئی تو ان نوافل سے پوری کر دی جائے گی اور اگر کمی نہ ہوئی تو نوافل اضافی ہوں گے۔ نماز وں کے اوقات میں سے زیادہ وقفہ عشا اور فجر کے نیز فجر اور ظہر کے درمیان ہے کہ جہاں درمیان میں کوئی فرض نماز نہیں ہے۔ ان کے درمیان نفل نماز مشروع کر دی گئی تاکہ ذکر سے غفلت کا وقت زیادہ طویل نہ ہو، چنانچہ نماز عشاء اور فجر کے درمیان نماز وتر اور قیام اللیل مشروع کیا اور نماز فجر اور ظہر کے درمیان نماز چاشت کو مشروع کیا۔ ان میں سے بعض نمازیں بعض کی نسبت زیادہ تاکید والی ہیں۔ سو نماز وتر کی تاکید زیادہ ہے، اسی لیے علماء کا اس کے وجوب کے بارے اختلاف ہے۔ پھر قیام اللیل کا درجہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر و حضر میں اس پر دوام کرتے، پھر نماز چاشت ہے، اس طرح سورج ڈھلنے کے بعد والی نماز کی ترغیب بھی وارد ہوئی ہے۔
(4) .... زبان کے ساتھ ذکر: یہ تمام اوقات میں مشروع ہے اور بعض میں تاکید ہے۔جن اوقات میں ذکر کی تاکید ہے،وہ فرض نمازوں کے بعد ہے۔ ہر نماز کے بعد سو مرتبہ سبحان اللہ۔ الحمد للہ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ پڑھے۔ وہ دو نمازیں جن کے بعد کوئی نفل نہیں ہوتے یعنی فجر اور عصر ان کے بعد بھی ذکر مستحب ہے۔ فجر کے بعد سورج طلوع ہونے تک اور عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک ذکر مشروع ہے۔ ذکر کے لیے یہ دونوں وقت پورے دن کے افضل اوقات میں سے ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان دو وقتوں میں اپنا ذکر کرنے کا متعددد مقامات پر حکم دیا ہے۔
﴿ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا ﴾ (طٰہٰ : 130)
’’اور سورج طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿فَسُبْحَانَ اللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ﴾(الروم : 17)
’’پس اللہ کی تسبیح ہے، جب تم شام کرتے ہو او ر جب صبح کرتے ہو۔‘‘
واضح رہے کہ ان دو وقتوں میں جو سب سے افضل ذکر کیا جاتا ہے، وہ نماز فجر اور نماز عصر کی ادائی ہے اور یہ دونوں نمازیں باقی نمازوں سے افضل ہیں۔
(5).... مطلق ذکر: اس میں نماز، تلاوت قرآن، قرآن سیکھنا، سکھانا اور علم نافع شامل ہیں، جیسا کہ تسبیح،تکبیر اور تہلیل اس میں داخل ہیں۔
(6).... انسان رات کی گھڑیوں اور دن کے لمحات میں جو امور دین و دنیا سرانجام دیتا ہے، ان میں اکثر اللہ کے نام سے شروع ہوتے ہیں۔ جس طرح کہ کھانے، پینے، لباس پہننے، ہم بستر ہونے، گھرمیں داخل ہونے، باہر نکلے، سواری پر سوار ہونے کے وقت، بسم اللہ اور الحمد للہ کہنا مشروع ہے۔ اس طرح قربانی کرتے وقت اللہ کا نام لینا مسنون ہے۔
الحمد للہ کہنا چاہیے جب: چھینک ماریں، دین و دنیا کے بارے کسی کو مصیبت میں مبتلا دیکھیں، جب بھائی آپس میں ملیں اور ایک دوسرے کا حال احوال دریافت کریں، کسی نعمت کے ملنے اور شر کے دفعیے پر، اس سے بھی زیادہ کامل حمد الٰہی یہ ہے کہ خوشی،غم، سختی، آسودگی، نیز ہرحالت میں اللہ کی حمد کرے۔
(7) .... آدمی کو چاہیے کہ دعا کرے، جب: بازار میں داخل ہو، جب رات کو مرغوں کی آواز سنے، جب بجلی کڑکے، بارش اترے، تندو تیز ہوائیں چلیں، جب پہلی رات کا چاند دیکھے اور جب موسم کا پہلا پھیل دیکھے۔
(8).... اسی طرح اللہ کا ذکر اور دعا کرے، جب: کوئی مصیبت آن پڑے، دنیوی حادثے سے دوچار ہوجائے، سفر پر نکلتے وقت، دوران سفر منزلوں پر اترتے وقت اور سفر سے لوٹتے وقت۔
(9) .... اسی طرح اللہ کی پناہ مانگے، جب: غضب ناک ہو، بر اخواب دیکھتے وقت، رات کے وقت کتوں اور گدھوں کی آواز سنتے وقت۔
(10).... ایسے ہی استخارہ مشروع ہے، جب ایسے کام کا عزم کرے جس میں خیر و بھلائی ظاہر نہ ہو رہی ہو۔
(11).... نیز اللہ تعالیٰ سے چھوٹے بڑے گناہوں کی توبہ اور استغفار واجب ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ﴾ (آل عمران : 135)
’’اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں، تو اللہ کو یاد کرتے ہیں پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں۔‘‘
جس نے اس کی محافظت کر لی، تمام احوال میں اس کی زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہے گی۔( جامع العلوم والحکم، ابن رجب حنبلی: 50۔)