كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، ثَنَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ حَدَّثَهُ أَنَّ مَحْمُودَ بْنَ الرَّبِيعِ، زَعَمَ أَنَّهُ عَقَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ عَقَلَ مَجَّةً مَجَّهَا مِنْ دَلْوٍ كَانَتْ فِي دَارِهِمْ، قَالَ: سَمِعْتُ عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيَّ يَقُولُ: كُنْتُ أُصَلِّي بِقَوْمِي بَنِي سَالِمٍ ? فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي قَدْ أَنْكَرْتُ بَصَرِي، وَإِنَّ السُّيُولَ تَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَ مَسْجِدِ قَوْمِي، فَلَوَدِدْتُ أَنَّكَ جِئْتَ فَصَلَّيْتَ فِي بَيْتِي مَكَانًا أَتَّخِذُهُ مَسْجِدًا؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَفْعَلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ))، فَغَدَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو بَكْرٍ مَعَهُ بَعْدَمَا اشْتَدَّ النَّهَارُ، فَاسْتَأْذَنَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنْتُ لَهُ، فَلَمْ يَجْلِسْ حَتَّى قَالَ: ((أَيْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّيَ مِنْ بَيْتِكَ؟)) فَأَشَرْتُ لَهُ إِلَى الْمَكَانِ الَّذِي أُحِبُّ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَفَفْنَا خَلْفَهُ، ثُمَّ سَلَّمَ وَسَلَّمْنَا حِينَ سَلَّمَ، فَحَبَسْنَاهُ عَلَى خَزِيرٍ صُنِعَ لَهُ فَسَمِعَ بِهِ أَهْلُ الدَّارِ وَهُمْ يَدْعُونَ قِرَاهُمُ الدُّورَ، فَثَابُوا حَتَّى امْتَلَأَ الْبَيْتُ، فَقَالَ رَجُلٌ: أَيْنَ مَالِكُ بْنُ الدُّخْشُنِ؟ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَّا: ذَاكَ رَجُلٌ مُنَافِقٌ لَا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا تَقُولُهُ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ))، قَالَ: أَمَّا نَحْنُ فَنَرَى وَجْهَهُ وَحَدِيثَهُ إِلَى الْمُنَافِقِينَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا: ((لَا تَقُولُهُ يَقُولُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ)) قَالُوا: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((فَلَنْ يُوَافِيَ عَبْدٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَهُوَ يَقُولُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ يَبْتَغِي بِذَلِكَ وَجْهَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ النَّارَ))، قَالَ مَحْمُودٌ: فَحَدَّثْتُ قَوْمًا مِنْهُمْ أَبُو أَيُّوبَ صَاحِبُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَتِهِ الَّتِي تُوُفِّيَ فِيهَا مَعَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيَّ، وَقَالَ: مَا أَظُنُّ رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ: مَا قُلْتُ قَطُّ، فَأَبْرَدَ ذَلِكَ عَلَيَّ، جَعَلْتُ لِلَّهِ عَلَيَّ أَنْ سَلَّمَنِي حَتَّى أَنْفَتِلَ مِنْ غَزْوَتِي أَنْ أَسْأَلَ عَنْهَا عِتْبَانَ بْنَ مَالِكٍ فَوَجَدْتُهُ حَيًّا، فَأَهْلَلْنَا مِنْ إِيلِيَاءَ بِحَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، فَأَتَيْتُ بَنِي سَالِمٍ فَإِذَا عِتْبَانُ شَيْخٌ كَبِيرٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَصَرُهُ وَهُوَ إِمَامُ قَوْمِهِ، فَلَمَّا سَلَّمَ مِنْ صَلَاتِهِ جِئْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَأَخْبَرْتُهُ مَنْ أَنَا، فحَدَّثَنِي بِهِ كَمَا حَدَّثَنِي بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: وَلَكِنْ لَا نَدْرِي أَكَانَ هَذَا قَبْلَ أَنْ يُنْزَلَ مُوجِبَاتُ الْفَرَائِضِ فِي الْقُرْآنِ، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى أَوْجَبَ عَلَى أَهْلِ هَذِهِ الْكَلِمَةِ الَّتِي ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَائِضَ فِي كِتَابِهِ، فَنَحْنُ نَخَافُ أَنْ يَكُونَ صَارَ الْأَمْرُ إِلَيْهَا فَمَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ لَا يَغْتَرَّ فَلَا يَغْتَرَّ
کتاب
باب
سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے گمان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمجھا اور وہ کلی سمجھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر کے ایک ڈول سے کی۔ کہا کہ میں نے سیدنا عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ کو جو کہ بنو سالم کے ایک فرد ہیں، فرماتے ہوئے سنا: میں اپنی قوم بنو سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھا،میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور گویا ہوا: بے شک میری نظر جاتی رہی ہے اور سیلاب میرے اور میری قوم کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں، میری تمنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں اور میری گھر میں کسی جگہ نماز پڑھیں، میں اسے (گھر کی)مسجد بنا لوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ایسا کروں گا، ان شاء اللہ۔‘‘ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح جبکہ دھوپ تیز ہو گئی، تشریف لائے، ساتھ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجاز ت طلب کی، میں نے اجازت دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے نہیں، یہاں تک کہ فرمایا: تم کہاں پسند کرتے ہو کہ میں تمہارے گھر میں نماز پڑھوں ؟میں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا، جہاں میں پسند کرتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نماز پڑھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صفیں بنا لیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور ہم نے بھی سلام پھیر دیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خزیر (قیمے اور آٹے سے تیار کردہ کھانے)کے لیے روک لیا، جو تیار کیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اہل محلہ نے سن لیا اور وہ اپنی ضیافت کی محلوں میں منادی کرتے تھے، پس وہ جمع ہو گئے، یہاں تک کہ گھر کھچا کھچ بھر گیا۔ ایک آدمی نے کہا کہ مالک بن دخشن کہاں ہے؟ دوسرے آدمی نے کہا یہ تو ایک منافق آدمی ہے، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں کرتا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم اسے یہ (الزام)نہ دو، وہ لا الہ الا اللہ پڑھتا ہے، اس کے ساتھ اللہ عزوجل کے چہرے کا ہی ارادہ رکھتا ہے۔‘‘ اس نے کہا کہ لیکن ہم تو اس کی توجہ اور گفتگو منافقین کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کے متعلق یہ نہ کہو، وہ لا الہ الا اللہ کہتا ہے، اس کے ساتھ اللہ عزوجل کے چہرے کا ہی ارادہ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بندہ بھی قیامت والے دن آئے گا اور وہ لا الہ الا اللہ کہتا ہوگا، وہ اس کے ذریعے اللہ عزوجل کا چہرہ تلاش کرتا ہوگا تو اللہ یقینا اس پر آگ حرام کر دے گا۔‘‘ محمود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث کچھ لوگوں کو سنائی، جن میں ابوایوب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بھی تھے، اس غزوے میں جس میں وہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ فوت ہوئے۔ انہوں نے مجھ پر اس کا انکار کیا اور کہا: میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قطعاً یہ فرمایا ہے جو تونے بیان کیا ہے۔ یہ بات مجھ پر گراں گزری، میں نے کہا کہ اللہ کے لیے مجھ پر نذر ہے کہ اگر اس نے مجھے غزوے سے بہ سلامت لوٹا دیا توا س کے متعلق عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھوں گا،سو میں نے انہیں بہ قید حیات پا لیا، میں نے ایلیاء سے حج یا عمرے کا احرام باندھا، یہاں تک کہ مدینہ میں آگیا بنو سالم میں آیا تو وہاں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ تھے، بہت بوڑھے ہو چکے تھے، نظر جا چکی تھی اور اپنی قوم کے امام تھے، جب انہوں نے اپنی نماز سے سلام پھیرا، تو میں آیا اور سلام کہا اور بتایا کہ میں کون ہوں تو انہوں نے مجھے یہ حدیث بیان کی، جس طرح کہ مجھے پہلی مرتبہ بیان کی تھی۔ زہری نے کہا کہ اور لیکن یہ معلوم نہیں کہ کیا یہ قرآن میں فرائض کے موجبات نازل ہونے سے پہلے کی بات ہے، بے شک اللہ تعالیٰ نے اس کلمے والوں پر جس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے۔ اپنی کتاب میں کئی فرائض واجب کیے ہیں، ہم ڈرتے ہیں کہ معاملہ ان کی طرف منتقل ہو گیا ہو، جو طاقت رکھتا ہے کہ دھوکے میں نہ پڑے، تو اسے دھوکے کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
تشریح :
اہل علم نے اس حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے۔
(1).... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنا۔ نیز علماء فضلا اور بڑوں کا اپنے پیروکاروں کی زیارت و ملاقات کے لیے جانا۔
(2) .... کسی پیش آمدہ مصلحت کی خاطر مفضول (چھوٹا آدمی)فاضل (بڑے)کے سامنے استدعا کر سکتا ہے۔
(3) .... اتفاقاً نفل نماز کی جماعت کروائی جا سکتی ہے، اس میں ندا نہیں ہوگی۔
(4) .... دن کے نوافل میں مسنون طریقہ رات کی طرح دو رکعت ہے۔
(5).... نمازیوں کی موجودگی میں گفتگو جائز ہے، جب تک کہ انہیں مشغول نہ کرے نیز نماز کو خلط ملط نہ کرے۔
(6).... مہمان، میزبان کی اجازت سے نماز پڑھا جا سکتا ہے۔
(7) .... جن لوگوں پرفتنہ و فساد کی تہمت ہو، حکمران وغیرہ کے آگے اس کا ذکر کیا جا سکتا ہے، تاکہ اس سے بچا جا سکے۔
(8).... جس کا تذکرہ برائی کے ساتھ کیا جائے اور وہ اس تہمت سے بری ہو تو اس کا دفاع کیا جائے۔
(9) .... حدیث اور علوم شرعیہ کی کتابت جائز ہے، کیوں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ ’’اس حدیث کو لکھو۔‘‘ (صحیح مسلم : 149۔)
(10).... جس جگہ جو کام زیادہ اہمیت والا ہو اسے پہلے سرانجام دیاجائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے بلایا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے نماز پڑھائی۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ان کے گھر کھاناکھایا اور نماز بعد میں پڑھی، کیوں کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکھانے کی دعوت تھی۔
(11).... حکمران اور عالم دعوت اور ملاقات وغیرہ کے لیے اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر جا سکتا ہے۔
(12).... جو آدمی یہ کہے کہ عنقریب میں ایسا کروں گا اسے چاہیے کہ ان شاء اللہ ساتھ کہے جیسا کہ آیت اور اس حدیث میں آیا ہے۔
(13).... عذر کی وجہ سے جماعت ساقط ہو جاتی ہے۔
(14).... جب کسی کے گھر جائیں تو پہلے اجازت طلب کریں، اگرچہ صاحب خانہ نے ہی پہلے سے بلا رکھا ہو۔
(15).... اہل محلہ اور پڑوسیوں کو چاہیے کہ اگر ان کی ہمسائیگی میں کوئی نیک شخصیت تشریف لائی ہے تو اس کی زیارت عزت افزائی اور استفادے کے لیے حاضر ہوں۔
(16).... گھر کے اندر نماز کے لیے جگہ مخصوص کرنے میں کوئی حرج نہیں، حدیث کے اندر جو اونٹ کی طرح جگہ خاص کرنے کی ممانعت آئی ہے، وہ مسجد میں ہے تاکہ ریاکاری وغیرہ سے بچا جا سکے۔
(17).... جو توحید پر فوت ہوا اور ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔( شرح صحیح مسلم : 1؍47، 233۔)
(18).... صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا محمود کے چہرے پر کلی کی تھی۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بچوں سے پیار اور ان کے آباء کا اکرام، نیز لطیف مزاح تھا۔ بعض نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ محمود رضی اللہ عنہ اسے یاد کر لیں اور آگے نقل کر دیں، تاکہ انہیں نقل حدیث کی فضیلت حاصل ہوجائے اور یہ ان کی صحت حجت کی بھی دلیل بن جائے، اگرچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ممیز تھے اور ان کی عمر پانچ سال تھی۔ دوسرے قول کے مطابق وہ چار سال کے تھے۔ واللہ اعلم(شرح صحیح مسلم : 1؍233۔)
(19).... سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہ ملی اور انہوں نے جو عذر پیش کیے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معتبر نہیں سمجھے۔ ان کا معاملہ عتبان رضی اللہ عنہ سے مختلف تھا۔
(20)فتح قسطنطنیہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے زیر لِواء ہوئی۔ جس لشکر کی فضیلت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی کہ وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر غزوہ کریں گے، ان کو بخش دیا گیا ہے۔( صحیح بخاري: 2924۔)
اس خوش خبری کی سعادت سے بہرہ مند ہونے کے لیے کئی اکابر صحابہ اس جنگ میں کشاں کشاں چلے آئے۔ جیسا کہ اس حدیث میں سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے۔ اس طرح سیدہ ام حرام بنت ملحان کا ذکر بھی صحیح بخاری (2788، 2789، 2799، 2877، 2844، 6282، 7001 وغیرہ)میں ہے کہ انہوں نے اس غزوے میں شرکت کی آرزو کی لیکن وہ اس سے قبل بحری غزوۂ قبرص سے واپسی پر فوت ہو گئیں۔
تخریج :
صحیح بخاري: 2؍118، الزهد، ابن مبارك : 323، صحیح مسلم : 1496، سنن ابن ماجة: 754، مسند احمد : 4؍44، صحیح ابن حبان : 1؍261، طبقات ابن سعد : 3؍55۔
اہل علم نے اس حدیث سے متعدد مسائل کا استنباط کیا ہے۔
(1).... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنا۔ نیز علماء فضلا اور بڑوں کا اپنے پیروکاروں کی زیارت و ملاقات کے لیے جانا۔
(2) .... کسی پیش آمدہ مصلحت کی خاطر مفضول (چھوٹا آدمی)فاضل (بڑے)کے سامنے استدعا کر سکتا ہے۔
(3) .... اتفاقاً نفل نماز کی جماعت کروائی جا سکتی ہے، اس میں ندا نہیں ہوگی۔
(4) .... دن کے نوافل میں مسنون طریقہ رات کی طرح دو رکعت ہے۔
(5).... نمازیوں کی موجودگی میں گفتگو جائز ہے، جب تک کہ انہیں مشغول نہ کرے نیز نماز کو خلط ملط نہ کرے۔
(6).... مہمان، میزبان کی اجازت سے نماز پڑھا جا سکتا ہے۔
(7) .... جن لوگوں پرفتنہ و فساد کی تہمت ہو، حکمران وغیرہ کے آگے اس کا ذکر کیا جا سکتا ہے، تاکہ اس سے بچا جا سکے۔
(8).... جس کا تذکرہ برائی کے ساتھ کیا جائے اور وہ اس تہمت سے بری ہو تو اس کا دفاع کیا جائے۔
(9) .... حدیث اور علوم شرعیہ کی کتابت جائز ہے، کیوں کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا کہ ’’اس حدیث کو لکھو۔‘‘ (صحیح مسلم : 149۔)
(10).... جس جگہ جو کام زیادہ اہمیت والا ہو اسے پہلے سرانجام دیاجائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے بلایا گیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے نماز پڑھائی۔ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ان کے گھر کھاناکھایا اور نماز بعد میں پڑھی، کیوں کہ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکھانے کی دعوت تھی۔
(11).... حکمران اور عالم دعوت اور ملاقات وغیرہ کے لیے اپنے ساتھیوں کو ساتھ لے کر جا سکتا ہے۔
(12).... جو آدمی یہ کہے کہ عنقریب میں ایسا کروں گا اسے چاہیے کہ ان شاء اللہ ساتھ کہے جیسا کہ آیت اور اس حدیث میں آیا ہے۔
(13).... عذر کی وجہ سے جماعت ساقط ہو جاتی ہے۔
(14).... جب کسی کے گھر جائیں تو پہلے اجازت طلب کریں، اگرچہ صاحب خانہ نے ہی پہلے سے بلا رکھا ہو۔
(15).... اہل محلہ اور پڑوسیوں کو چاہیے کہ اگر ان کی ہمسائیگی میں کوئی نیک شخصیت تشریف لائی ہے تو اس کی زیارت عزت افزائی اور استفادے کے لیے حاضر ہوں۔
(16).... گھر کے اندر نماز کے لیے جگہ مخصوص کرنے میں کوئی حرج نہیں، حدیث کے اندر جو اونٹ کی طرح جگہ خاص کرنے کی ممانعت آئی ہے، وہ مسجد میں ہے تاکہ ریاکاری وغیرہ سے بچا جا سکے۔
(17).... جو توحید پر فوت ہوا اور ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا۔( شرح صحیح مسلم : 1؍47، 233۔)
(18).... صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا محمود کے چہرے پر کلی کی تھی۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد بچوں سے پیار اور ان کے آباء کا اکرام، نیز لطیف مزاح تھا۔ بعض نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ محمود رضی اللہ عنہ اسے یاد کر لیں اور آگے نقل کر دیں، تاکہ انہیں نقل حدیث کی فضیلت حاصل ہوجائے اور یہ ان کی صحت حجت کی بھی دلیل بن جائے، اگرچہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ممیز تھے اور ان کی عمر پانچ سال تھی۔ دوسرے قول کے مطابق وہ چار سال کے تھے۔ واللہ اعلم(شرح صحیح مسلم : 1؍233۔)
(19).... سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو جماعت سے پیچھے رہنے کی اجازت نہ ملی اور انہوں نے جو عذر پیش کیے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معتبر نہیں سمجھے۔ ان کا معاملہ عتبان رضی اللہ عنہ سے مختلف تھا۔
(20)فتح قسطنطنیہ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے زیر لِواء ہوئی۔ جس لشکر کی فضیلت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی کہ وہ پہلا لشکر جو قیصر کے شہر پر غزوہ کریں گے، ان کو بخش دیا گیا ہے۔( صحیح بخاري: 2924۔)
اس خوش خبری کی سعادت سے بہرہ مند ہونے کے لیے کئی اکابر صحابہ اس جنگ میں کشاں کشاں چلے آئے۔ جیسا کہ اس حدیث میں سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے۔ اس طرح سیدہ ام حرام بنت ملحان کا ذکر بھی صحیح بخاری (2788، 2789، 2799، 2877، 2844، 6282، 7001 وغیرہ)میں ہے کہ انہوں نے اس غزوے میں شرکت کی آرزو کی لیکن وہ اس سے قبل بحری غزوۂ قبرص سے واپسی پر فوت ہو گئیں۔