كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ هِشَامٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رِفَاعَةَ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْكَدِيدِ، أَوْ قَالَ بِالْقُدَيْدِ، جَعَلَ رِجَالٌ مِنَّا يَسْتَأْذِنُونَ إِلَى أَهْلِيهِمْ فَيَأْذَنُ لَهُمْ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَقَالَ: خَيْرًا، ثُمَّ قَالَ: ((أَشْهَدُ عِنْدَ اللَّهِ لَا يَمُوتُ عَبْدٌ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ صَادِقًا مِنْ قَلْبِهِ، ثُمَّ يُسَدِّدُ إِلَّا سَلَكَ بِهِ فِي الْجَنَّةِ، وَقَدْ وَعَدَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْخِلَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا لَا حِسَابَ عَلَيْهِمْ وَلَا عَذَابَ، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ لَا يَدْخُلُوهَا حَتَّى تَبَوَّءُوا أَنْتُمْ وَمَنْ صَلَحَ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ وَذُرِّيَّاتِكُمْ مَسَاكِنَ فِي الْجَنَّةِ، وَقَالَ: إِذَا مَضَى نِصْفُ اللَّيْلِ أَوْ ثُلُثٌ مِنَ اللَّيْلِ يَنْزِلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا فَقَالَ: لَا يَسْأَلُ عَنْ عِبَادِي غَيْرِي، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْتَغْفِرُنِي أَغْفِرُ لَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَدْعوُنِي أَسْتَجِيبُ لَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي يَسْأَلُنِي أُعْطِيهِ، حَتَّى يَتَفَجَّرَ الصُّبْحُ))
کتاب
باب
سیدنا رفاعہ جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے، یہاں تک کہ جب ہم الکدیر یا قدید مقام پر تھے، ہم میں سے کچھ لوگ اپنے گھر والوں کی طرف جانے کی اجازت طلب کرنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اجازت مرحمت فرما دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد بیان کی اور فرمایا: ’’بھلائی تلاش کرو، پھر فرمایا: میں اللہ کے پاس گواہی دیتا ہوں جو بندہ بھی فوت ہوتا ہے، وہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، اپنے صدق دل سے، پھر درست رہے تو وہ یقینا اسے جنت میں داخل کرے گا اور یقینا میرے رب عزوجل نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میری امت میں سے ستر ہزار کو جنت میں داخل کرے گا، ان کا کوئی حساب ہوگا اور نہ ان پر عذاب ہوگا اور بے شک میں قطعی امیدکرتا ہوں کہ ان کے داخل ہونے سے قبل تم اورتمہاری بیویوں اور اولاد میں سے جو نیک ہیں،جنت میں گھروں کی جگہ بنا چکے ہوں گے اور فرمایا: جب آدھی رات یا رات کا ایک تہائی حصہ گزر جاتا ہے تو اللہ عزوجل آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے اور کہتا ہے: میرے علاوہ میرے بندوں سے سوال نہیں کیا جا سکتا، کون ہے جو مجھ سے گناہوں کی معافی مانگے تاکہ میں اسے بخش دوں ؟ کون ہے جو مجھ سے دعا کرے تاکہ میں اس کی دعا قبول کر لوں ؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے، تاکہ میں اسے دے دوں، حتی کہ فجر پھوٹ جاتی ہے۔‘‘
تشریح :
(1).... اس حدیث کا مضمون بھی گزشتہ حدیث والا ہے کہ جوعقیدۂ توحید پر فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔
(2) .... بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جانے والوں کا ذکر ہے اور ان سے بھی پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنت میں جائیں گے۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم کی بیویاں اوراولاد بھی اگر وہ صحابی ہیں ورنہ بہ شرط صالحیت یعنی اولاد و ازواج صحابہ رضی اللہ عنہم اگر ان میں سے کوئی شرف صحبت سے مستفید نہ ہو بلکہ ان کا زمانہ عہد رسالت کے بعد کا ہے کہ وہ صالح ہیں تو ان کو یہ درجہ ملے گا کہ بغیر حساب و عذاب جنت میں جانے والے خوش نصیب لوگوں سے بھی پہلے، وہ جنت میں گھر بناچکے ہوں گے۔
(3) .... رات کے پچھلے پہر کی فضیلت کہ وہ قبولیت کا وقت ہے اور اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اتر آتا ہے۔ نزول باری تعالیٰ ویسے ہی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 322، صحیح ابن حبان : 1؍253، مسند احمد : 4؍16، حلیة الأولیاء، ابو نعیم : 6؍286، مسند طیالسي (المنحة(: 1؍254۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
(1).... اس حدیث کا مضمون بھی گزشتہ حدیث والا ہے کہ جوعقیدۂ توحید پر فوت ہوا وہ جنت میں جائے گا۔
(2) .... بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جانے والوں کا ذکر ہے اور ان سے بھی پہلے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنت میں جائیں گے۔ اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم کی بیویاں اوراولاد بھی اگر وہ صحابی ہیں ورنہ بہ شرط صالحیت یعنی اولاد و ازواج صحابہ رضی اللہ عنہم اگر ان میں سے کوئی شرف صحبت سے مستفید نہ ہو بلکہ ان کا زمانہ عہد رسالت کے بعد کا ہے کہ وہ صالح ہیں تو ان کو یہ درجہ ملے گا کہ بغیر حساب و عذاب جنت میں جانے والے خوش نصیب لوگوں سے بھی پہلے، وہ جنت میں گھر بناچکے ہوں گے۔
(3) .... رات کے پچھلے پہر کی فضیلت کہ وہ قبولیت کا وقت ہے اور اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر اتر آتا ہے۔ نزول باری تعالیٰ ویسے ہی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔