كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ الْغَازِ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، أَنَّهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي فَلْيَظُنَّ بِي مَا شَاءَ))
کتاب
باب
سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کا فرمان ہے کہ میں اپنے بندے کے میرے متعلق گمان کے پاس ہوں، پس وہ میرے بارے میں جو چاہے گمان کر لے۔‘‘
تشریح :
(1).... یہ حدیث قدسی ہے۔ اس میں رجا اور معافی کی اچھی امید اللہ تعالیٰ سے وابستہ کرنے کی ترغیب ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس کامطلب ہے کہ جب بھی بندہ اللہ سے بخشش مانگے تو وہ بخش دے گا، توبہ کرے گا تو وہ قبول کرے گا، دعا کرے گا تو وہ بھی جھولی بھر دے گا، اسے کافی سمجھے گا تو وہ کافی ہو جائے گا۔ (یعنی جیسی امید باری تعالیٰ سے قائم کرے گا وہ ویسا ہی سلوک کرے گا۔)( شرح صحیح مسلم : 2؍341 (2675)۔)
(2) .... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے نیک بندے کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ () فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ﴾(المؤمن : 44،45)
’’میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، یقینا اللہ بندوں کو دیکھنے والا ہے، چنانچہ اللہ نے ان برائیوں سے بچا لیا، جس کی تدبیریں (مخالفین نے)کی تھیں۔‘‘
یہ نیک آدمی وہ ہے، جسے قرآن نے، آل فرعون میں سے ایک مومن، کہا ہے، اس نے فرعونیوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف کسی قسم کی کاروائی سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس مشورے پر اسے اپنی جان کا بھی خطرہ لاحق تھا، اسی لیے اس نے اپنی تقریر کے آخر میں یہ الفاظ کہے، جس میں اس نے اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دینے کا اعلان کر کے اللہ سے اچھی امید وابستہ کی۔ چنانچہ اللہ نے بھی اس کی امید کے مطابق اس کی مدد فرمائی اور فرعونیوں کے کید و مکر سے اسے بچا لیا۔
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 318، مسند دارمي: 2؍214، مسند احمد : 16016، مستدرك حاکم : 4؍420، صحیح ابن حبان، (الموارد(: 184، حلیة الأولیاء، ابو نعیم :9؍306۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔
(1).... یہ حدیث قدسی ہے۔ اس میں رجا اور معافی کی اچھی امید اللہ تعالیٰ سے وابستہ کرنے کی ترغیب ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس کامطلب ہے کہ جب بھی بندہ اللہ سے بخشش مانگے تو وہ بخش دے گا، توبہ کرے گا تو وہ قبول کرے گا، دعا کرے گا تو وہ بھی جھولی بھر دے گا، اسے کافی سمجھے گا تو وہ کافی ہو جائے گا۔ (یعنی جیسی امید باری تعالیٰ سے قائم کرے گا وہ ویسا ہی سلوک کرے گا۔)( شرح صحیح مسلم : 2؍341 (2675)۔)
(2) .... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے نیک بندے کے بارے میں خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے:
﴿ وَأُفَوِّضُ أَمْرِي إِلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ () فَوَقَاهُ اللَّهُ سَيِّئَاتِ مَا مَكَرُوا ﴾(المؤمن : 44،45)
’’میں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، یقینا اللہ بندوں کو دیکھنے والا ہے، چنانچہ اللہ نے ان برائیوں سے بچا لیا، جس کی تدبیریں (مخالفین نے)کی تھیں۔‘‘
یہ نیک آدمی وہ ہے، جسے قرآن نے، آل فرعون میں سے ایک مومن، کہا ہے، اس نے فرعونیوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف کسی قسم کی کاروائی سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس مشورے پر اسے اپنی جان کا بھی خطرہ لاحق تھا، اسی لیے اس نے اپنی تقریر کے آخر میں یہ الفاظ کہے، جس میں اس نے اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کر دینے کا اعلان کر کے اللہ سے اچھی امید وابستہ کی۔ چنانچہ اللہ نے بھی اس کی امید کے مطابق اس کی مدد فرمائی اور فرعونیوں کے کید و مکر سے اسے بچا لیا۔