كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصَّلَوَاتُ كَفَّارَاتٌ لِلخَطَايَا، الصَّلَوَاتُ كَفَّارَاتٌ للخَطَايَا، فَاقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: {إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى للذَّاكِرِينَ} [هود: 114]
کتاب
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں، نمازیں گناہوں کا کفارہ ہیں اور اگر چاہو تو پڑھ لو: ﴿ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ ﴾ (ھود : 114)’’بے شک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں، یہ نصیحت ہے نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے۔‘‘
تشریح :
(1).... نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ﴾ (العنکبوت : 45)
’’بے شک نماز بے حیائی اور برے کام سے روکتی ہے۔‘‘
پھر اگر گناہ سرزد ہوجائے تو نماز کفارہ بن جاتی ہے۔
(2) .... نماز سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں،نہ کہ کبیرہ، جیسا کہ حدیث میں ہے: ((مَا لَمْ یُؤْتِ کَبِیرَةً)) (صحیح مسلم : 228۔) ’’جب تک کبیرہ کا ارتکاب نہ کیا جائے۔‘‘
کبیرہ گناہ سچی توبہ سے اور اگر حقوق العباد سے متعلق ہو تو اس سے معافی تلافی سے معاف ہوتے ہیں۔
(3) .... نماز کے یہ فوائد اس شخص کے حصے میں آتے ہیں جو نماز کو اس کے آداب کے ساتھ ادا کرتا ہے، یعنی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اور خشوع خضوع کے ساتھ، ’’ٹھونگوں والی‘‘ اور ’’تو چل میں آیا‘‘ کے انداز میں پڑھی جانے والی نماز، نماز ہی نہیں، جیسا کہ بقول علامہ اقبال:
تیرا دل تو ہے صنم آشنا
تجھے کیا ملے گا نماز میں
نیز بقول شاعر دیگر:
جب تک نہ ہو میرا خشوع تیری نماز کا امام
تیرا سجود بھی حجاب، تیرا قیام بھی حجاب
اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھیں
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 317، صحیح بخاري: 526 بمعناه۔
(1).... نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ﴾ (العنکبوت : 45)
’’بے شک نماز بے حیائی اور برے کام سے روکتی ہے۔‘‘
پھر اگر گناہ سرزد ہوجائے تو نماز کفارہ بن جاتی ہے۔
(2) .... نماز سے صغیرہ گناہ معاف ہوتے ہیں،نہ کہ کبیرہ، جیسا کہ حدیث میں ہے: ((مَا لَمْ یُؤْتِ کَبِیرَةً)) (صحیح مسلم : 228۔) ’’جب تک کبیرہ کا ارتکاب نہ کیا جائے۔‘‘
کبیرہ گناہ سچی توبہ سے اور اگر حقوق العباد سے متعلق ہو تو اس سے معافی تلافی سے معاف ہوتے ہیں۔
(3) .... نماز کے یہ فوائد اس شخص کے حصے میں آتے ہیں جو نماز کو اس کے آداب کے ساتھ ادا کرتا ہے، یعنی سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق اور خشوع خضوع کے ساتھ، ’’ٹھونگوں والی‘‘ اور ’’تو چل میں آیا‘‘ کے انداز میں پڑھی جانے والی نماز، نماز ہی نہیں، جیسا کہ بقول علامہ اقبال:
تیرا دل تو ہے صنم آشنا
تجھے کیا ملے گا نماز میں
نیز بقول شاعر دیگر:
جب تک نہ ہو میرا خشوع تیری نماز کا امام
تیرا سجود بھی حجاب، تیرا قیام بھی حجاب
اللہ تعالیٰ کے بارے میں حسن ظن رکھیں