مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 36

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ضَمْضَمِ بْنِ جَوْسٍ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ الْمَدِينَةِ، فَنَادَانِي شَيْخٌ، فَقَالَ: يَا يَمَانِيُّ، يَا يَمَانِيُّ، تَعَالَ. وَمَا أَعْرِفُهُ فَقَالَ: لَا تَقُولَنَّ لِرَجُلٍ: وَاللَّهِ لَا يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ أَبَدًا، وَلَا يُدْخِلُكَ الْجَنَّةَ أَبَدًا. قُلْتُ: وَمَنْ أَنْتَ يَرْحَمُكَ اللَّهُ؟ فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَقُلْتُ: إِنَّ هَذِهِ الْكَلِمَةَ يَقُولُهَا أَحَدُنَا لِبَعْضِ أَهْلِهِ إِذَا غَضِبَ، أَوْ لِزَوْجَتِهِ، أَوْ لِخَادِمِهِ. قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ((إِنَّ رَجُلَيْنِ كَانَا فِي بَنِي إسْرَائِيلَ مُتَحَابَّيْنِ، أَحَدُهُمَا مُجتهِدٌ فِي الْعِبَادَةِ، وَالْآخَرُ كَأَنَّهُ يَقُولُ: مُذْنِبٌ. فَجَعَلَ يَقُولُ: أَقْصِرْ، أَقْصِرْ عَمَّا أَنْتَ عَلَيْهِ. قَالَ: فَيَقُولُ: خَلِّنِي وَرَبِّي حَتَّى وَجَدَهُ يَوْمًا عَلَى ذَنْبٍ اسْتَعْظَمَهُ، قَالَ: أَقْصِرْ. قَالَ: خَلِّنِي وَرَبِّي، أَبُعِثْتَ عَلَيَّ رَقِيبًا؟ قَالَ: وَاللَّهِ لَا يَغْفِرُ اللَّهُ لَكَ أَبَدًا، أَوْ لَا تَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَبَدًا. قَالَ: فَبَعَثَ اللَّهُ إِلَيْهِمَا مَلَكًا، فَقَبَضَ رُوحَيْهِمَا فَاجْتَمَعَا عِنْدَهُ، فَقَالَ للمُذْنِبِ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِي، وَقَالَ لِلَآخَرِ: أَتَسْتَطِيعُ أَنْ تَحْظُرَ عَلَى عَبْدِي رَحْمَتِي؟ قَالَ: لَا يَا رَبِّ. قَالَ: اذْهَبُوا بِهِ إِلَى النَّارِ)) . قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَوْبَقَتْ دُنْيَاهُ وَآخِرَتَهُ

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 36

کتاب باب ضمضم بن حوس نے کہا کہ میں مدینہ کی مسجد میں داخل ہوا تو مجھے ایک بزرگ نے آواز دی اور کہا: اے یمامی! اے یمامی! آؤ اور میں اسے پہچانتا نہ تھا۔ اس نے کہا: کسی آدمی کو قطعاً یہ نہ کہنا: اللہ تمہیں کبھی نہیں بخشے گا اور نہ ہی جنت میں داخل کرے گا، میں نے کہا کہ آپ کون ہیں، اللہ آپ پر رحمت کرے؟ تو انہوں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، میں نے کہا کہ یہ الفاظ ہمارا کوئی ایک جب غصے میں ہوتا ہے تو اپنے بعض گھر والوں سے یا بیوی یا خادم سے کہہ دیتا ہے۔ کہا کہ بے شک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’یقینا بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے جو باہم محبت کرتے تھے، ان میں سے ایک عبادت میں محنت کرتا اور دوسرا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ گناہ گار تھا۔ تو وہ کہنے گا: جس حالت پر تم ہو اس سے باز آجاؤ، رک جاؤ، کہا کہ وہ کہتا: مجھے چھوڑ دو، اور میرے رب کو، یہاں تک کہ اس نے ایک دن اسے کسی گناہ میں ملوث پایا، تو اسے برا جانا اور کہا: رک جاؤ۔ اس نے کہا: مجھے چھوڑ دے اور میرے رب کو، کیا تم مجھ پر نگہبان بنا کر بھیجے گئے ہو؟ اس نے کہا: اللہ کی قسم! اللہ تجھے کبھی نہیں بخشے گا اور تجھے کبھی جنت میں داخل نہیں کرے گا!فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی طرف ایک فرشتہ بھیجا، اس نے دونوں کی روحیں قبض کیں، پس وہ دونوں اللہ کے پاس اکٹھے ہوئے تو (اللہ نے)گناہ گار سے فرمایا: میری رحمت کے ساتھ جنت میں داخل ہوجا اور دوسرے سے فرمایا: کیا تو طاقت رکھتا ہے کہ میرے بندے سے میری رحمت کو روک لے؟ اس نے کہا: نہیں، اے رب! فرمایا: اس کو آگ کی طرف لے جاؤ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقینا اس نے ایسا کلمہ کہا کہ جس نے اس کی دنیا اور آخرت تباہ و برباد کر کے رکھ دی۔
تشریح : (1).... اللہ ذوالجلال والاکرام کی رحمت کا سمندر ناپیدہ کنار ہے، اس کی رحمت غضب پر غالب ہے، وہ وسیع رحمت والا ہے،ا نسا ن کو ایسا کلمہ نہیں کہنا چاہیے جو تنگ نظری اور کم ظرفی پر مبنی ہو۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے، ایک بدوی نے جو کہ نماز میں تھا، کہا: اے اللہ! مجھ پررحم کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کرنا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو اس بدوی سے فرمایا: ’’یقینا تو نے بہت وسیع چیز کو تنگ کردیا۔‘‘( صحیح بخاري: 6010۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اللہ کی رحمت تھی۔ (2) .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درست رہو، قریب رہو اور خوش خبری لو، بے شک بات یہ ہے کہ کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا، انہوں نے کہا کہ اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اے اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور مجھے بھی نہیں، الایہ کہ اللہ مجھے اپنی بخشش اور رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔( صحیح بخاری: 6467، صحیح مسلم : 2816۔)
تخریج : الزهد، ابن مبارك : 314، مسند احمد ( الفتح الرباني): 19؍347، سنن ابي داؤد : 4901۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ (1).... اللہ ذوالجلال والاکرام کی رحمت کا سمندر ناپیدہ کنار ہے، اس کی رحمت غضب پر غالب ہے، وہ وسیع رحمت والا ہے،ا نسا ن کو ایسا کلمہ نہیں کہنا چاہیے جو تنگ نظری اور کم ظرفی پر مبنی ہو۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے، ایک بدوی نے جو کہ نماز میں تھا، کہا: اے اللہ! مجھ پررحم کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ کرنا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو اس بدوی سے فرمایا: ’’یقینا تو نے بہت وسیع چیز کو تنگ کردیا۔‘‘( صحیح بخاري: 6010۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد اللہ کی رحمت تھی۔ (2) .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: درست رہو، قریب رہو اور خوش خبری لو، بے شک بات یہ ہے کہ کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا، انہوں نے کہا کہ اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اے اللہ کے رسول؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور مجھے بھی نہیں، الایہ کہ اللہ مجھے اپنی بخشش اور رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔( صحیح بخاری: 6467، صحیح مسلم : 2816۔)