كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدًا الْجُرَيْرِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أُسَيْرِ بْنِ جَابِرٍ، قَالَ: كُنَّا نَجْلِسُ بِالْكُوفَةِ إِلَى مُحدِّثٍ لَنَا، فَإِذَا تَفَرَّقَ النَّاسُ بَقِيَ رِجَالٌ، مِنْهُمْ رَجُلٌ لَا أَسْمَعُ أَحَدًا يَتَكَلَّمُ كَلَامَهُ، فَأَحْبَبْتُهُ، وَوَقَعَ مِنْهُ فِي قَلْبِي، فَبَيْنَا أَنَا كَذَلِكَ إِذْ فَقَدْتُهُ، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي: ذَاكَ الرَّجُلُ كَذَا وَكَذَا، الَّذِي كَانَ يُجَالِسُنَا، هَلْ يَعْرِفُهُ أَحَدٌ مِنْكُمْ؟ قَالَ رَجُلٌ: نَعَمْ، ذَاكَ أُوَيْسٌ الْقَرَنِيُّ. فَقُلْتُ: هَلْ تَهْدِينِي إِلَى مَنْزِلِهِ؟ قَالَ: نَعَمْ. فَأَنْطَلَقْتُ مَعَهُ حَتَّى صِرْتُ عَلَيْهِ كَحَرْبَةٍ، قَالَ: فَخَرَجَ. فَقُلْتُ: أَيْ أَخِي؟ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأَتِيَنَا؟ قَالَ: الْعُرْيُ، لَمْ يَكُنْ لِي شَيْءٌ آتِيكُمْ فِيهِ، وَعَلَيَّ بُرْدٌ. فَقُلْتُ لَهُ: الْبَسْ هَذَا الْبُرْدَ. قَالَ: لَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي إِنْ لَبِسْتُ هَذَا الْبُرْدَ آذَوْنِي، فَلَمْ أَزَلْ بِهِ حَتَّى أَلْبَسَهُ. قَالَ: فَخَرَجَ عَلَيْهِمْ، فَقَالُوا: مَنْ خَادَعَ عَنْ بُرْدِهِ هَذَا؟ قَالَ: فَجَاءَ فَوَضَعَهُ يَكْتَسِي، قَالَ: فَأَتَيْتُهُمْ، فَقُلْتُ: مَا تُرِيدُونَ إِلَى هَذَا الرَّجُلِ، قَدْ آذَيْتُمُوهُ، الرَّجُلُ يَلْبَسُ مَرَّةً وَيَعْرَى مَرَّةً أُخْرَى؟ قَالَ: فَأَخَذْتُهُمْ بِلِسَانِي أَخْذًا شَدِيدًا، قَالَ: وَتَمَرَّدَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ هُوَ الَّذِي يَسْخَرُ بِهِ، فَوَفَدَ أَهْلُ الْكُوفَةِ إِلَى عُمَرَ، وَوَفَدَ ذَاكَ الرَّجُلُ فِيهِمْ، فَقَالَ عُمَرُ: هَاهُنَا أَحَدٌ مِنَ الْقَرَنِيِّينَ، فَجَاءَ ذَلِكَ الرَّجُلُ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَنَا: ((إِنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ الْقَرَنِيُّ، لَا يَدَعُ بِالْيَمَنِ غَيْرَ أُمٍّ لَهُ، قَدْ كَانَ بِهِ بَيَاضٌ فَدَعَا اللَّهَ فَأَذْهَبَهُ عَنْهُ، إِلَّا مَوْضِعَ الدِّينَارِ أَوْ مِثْلَ مَوْضِعِ الدِّرْهَمِ، فَمَنْ لَقِيَهُ مِنْكُمْ فَمُرُوهُ فَلْيَسْتَغْفِرْ لَكُمْ))، قَالَ: فَقَدِمَ عَلَيْنَا هَاهُنَا، فَقُلْتُ: مَا أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا أُوَيْسٌ. قُلْتُ: مَنْ تَرَكْتَ بِالْيَمَنِ؟ قَالَ: أُمٌّ لِي. قُلْتُ: كَانَ بِكَ بَيَاضٌ فَدَعَوْتَ اللَّهَ فَأَذْهَبَهُ عَنْكَ إِلَّا مَوْضِعَ الدِّينَارِ أَوْ مِثْلَ مَوْضِعِ الدِّرْهَمِ؟ قَالَ: نَعَمْ. قُلْتُ: اسْتَغْفِرْ لِي. قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مِثْلِي يَسْتَغْفِرُ لِمِثْلِكَ؟ قَالَ: فَقُلْتُ: أَنْتَ أَخِي، لَا تُفَارِقْنِي. قَالَ: فَانْمَلَسَ مِنِّي، فَأُنْبِئْتُ أَنَّهُ قَدِمَ عَلَيْكُمُ الْكُوفَةَ، قَالَ: جَعَلَ الرَّجُلُ يُحَقِّرُهُ عَمَّا يَقُولُ فِيهِ عُمَرُ، فَقُلْتُ: تَقُولُ مَا ذَلِكَ فِينَا، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا؟ قَالَ عُمَرُ: بَلَى، إِنَّهُ رَجُلٌ كَذَا، فَجَعَلَ يَضَعُ مِنْ أَمْرِهِ، أَيْ يُضْعِفُ مِنْ أَمْرِهِ؟ فَقَالَ: ذَلِكَ الرَّجُلُ عِنْدَنَا نَسْخَرُ بِهِ يُقَالُ لَهُ أُوَيْسٌ، قَالَ: هُوَ هُوَ، أَدْرِكْ وَلَا أُرَاكَ تُدْرِكُ، قَالَ: فَأَقْبَلَ الرَّجُلُ حَتَّى دَخَلَ عَلَيْهِ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَهْلَهُ، فَقَالَ أُوَيْسٌ: مَا كَانَتْ هَذِهِ عَادَتُكَ فَمَا بَدَا لَكَ؟ قَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ، لَقِيَنِي عُمَرُ، قَالَ كَذَا وَكَذَا فَاسْتَغْفِرْ لِي. قَالَ: لَا أَسْتَغْفِرُ لَكَ حَتَّى تَجْعَلَ عَلَيْكَ أَلَّا تَسْخَرَ بِي، وَلَا تَذْكُرَ مَا سَمِعْتَ مِنْ عُمَرَ إِلَى أَحَدٍ. قَالَ: لَكَ ذَلِكَ. قَالَ: فَاسْتَغْفَرَ لَهُ. قَالَ أُسَيْرٌ: فَمَا لَبِثْنَا حَتَّى فَشَا حَدِيثُهُ بِالْكُوفَةِ. قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا أَخِي، أَلَا أُرَاكَ أَنْتَ الْعَجَبُ، وَكُنَّا لَا نَشْعُرُ. قَالَ: مَا كَانَ فِي هَذَا مَا لِتَبْلُغَ فِيهِ إِلَى النَّاسِ، وَمَا يُجْزَى كُلُّ عَبْدٍ إِلَّا بِعَمَلِهِ. قَالَ: فَلَمَّا فَشَا الْحَدِيثُ هَرَبَ فَذَهَبَ
کتاب
باب
اسیربن جابر نے کہا کہ ہم کوفے میں اپنے ایک محدث کے پاس بیٹھا کرتے تھے۔جب لوگ بکھر جاتے تو کچھ آدمی باقی رہ جاتے، ان میں ایک ایسا آدمی تھا جو کسی کی نہ سنتا، بس اپنی بات کرتا، سو میں نے اسے پسند کیا اور اس کی محبت میرے دل میں پیوست ہو گئی۔ میں ایسے ہی تھا کہ اچانک اسے گم پایا تو میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ اس اس طرح کہ ایک آدمی تھا، جو ہمارے ساتھ بیٹھا کرتا تھا، کیا تم میں سے کوئی اسے پہچانتا ہے؟ کہا کہ ہاں، وہ اویس قرنی ہے، میں نے کہا: کیا اس کے گھر کا پتہ بتا سکتے ہو؟ کہا ہاں۔ میں اس کے ساتھ چلا، یہاں تک کہ اس کے حجرے پر جا کر دستک دی۔ کہاکہ وہ نکلا تو میں نے کہا: اے بھائی! تجھے ہمارے پاس آنے سے کس چیز نے روکا؟ اس نے کہا کہ عریانی نے، میرے پاس کوئی چیز (لباس(نہیں ہے، جس میں تمہارے پاس آؤں،میرے پاس ایک چادر ہے، میں نے کہا کہ یہ چادر ہی پہن لو۔ اس نے کہا کہ ایسا نہ کر، بے شک اگر میں نے یہ چادر پہن لی تو وہ مجھے اذیت دیں گے۔ پس میں ہمیشہ اس کے ساتھ (اصرار کرتا(رہا یہاں تک کہ اس نے وہی پہن لی۔ کہا کہ وہ ان پر نکلا تو انہوں نے کہا: اس نے اپنی اس چادر کے ساتھ کسی کو دھوکہ دیا؟ کہا کہ وہ آیا تو اسے اتا ر دیا۔ کہا میں ان کے پاس آیا اور کہا: تم اس آدمی کی طرف کس چیز کا ارادہ کھتے ہو، یقینا تم نے اسے تکلیف دی ہے، وہ ایک مرتبہ کپڑا پہنتا ہے اور دوسری مرتبہ اتارتا ہے؟ کہا کہ میں نے انہیں اپنی زبان کے ساتھ سختی سے پکڑا۔ کہا کہ وہاں اس کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی تھا وہی اس کا مذاق اڑاتا تھا۔ اہل کوفہ کا وفد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو وہ آدمی بھی ان کے ساتھ وفد میں آیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا یہاں کوئی اہل قرن میں سے ہے؟ تو یہی آدمی آیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’بات یہ ہے کہ تمہارے پاس یمن والوں کا ایک آدمی آئے گا جسے اویس قرنی کہا جائے گا، وہ یمن میں اپنی ماں کے سوا کسی کو نہیں چھوڑ کر آئے گا، اس کو پھلبہری ہوگی، اللہ سے دعا کرے گا، تو اللہ اس کو ختم کر دے گا، سوائے ایک دینار یا درہم کی جگہ کے، تم میں سے جو بھی اسے ملے تو اس سے درخواست کر ے کہ وہ اس کے لیے استغفار کرے۔‘‘ (عمر رضی اللہ عنہ نے)کہا کہ وہ ہمارے پاس یہاں آیا تھا، میں نے کہا کہ تو کون ہے؟ کہا: اویس، میں نے کہا: یمن میں کسے چھوڑ کر آئے ہو؟ کہا: اپنی ماں کو۔ میں نے کہا: کیا تجھے پھلبہری تھی، تم نے اللہ سے دعا کی تو اس نے تجھ سے ختم کر دی، سوائے ایک دینار کی جگہ، یا ایک درہم کی جگہ کی مثل کے؟ کہا: ہاں۔ میں نے کہا: میرے لیے استغفار کرو، اس نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! کیا میرے جیسا آپ جیسے کے لیے استغفار کرے؟ کہا: میں نے کہا کہ تو میرا بھائی ہے، تم مجھ سے جدا نہیں ہو سکتے، کہا کہ وہ میرے پاس سے جلدی چلتے ہوئے چلا گیا، مجھے خبر دی گئی کہ وہ تمہارے پاس کوفے میں آیا ہے۔ کہا کہ وہ آدمی شروع ہوا اور جو کچھ اس کے متعلق عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا اسے اس سے کم تر سمجھنے لگا اور کہنے لگا: وہ شخص ہم میں سے نہیں اور نہ ہی ہم اسے پہچانتے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیوں نہیں، بے شک وہ اس اس طرح کا آدمی ہے، وہ اس کے اوصاف بیان کرنے لگے، اس نے کہا کہ وہ آدمی ہمارے پاس ہے، اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے، اسے اویس کہتے ہیں۔ کہا کہ وہ وہی ہے، اس نے پا لیا اور میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم اسے پا سکو گے۔ کہا: وہ آدمی آیا تو اپنے گھر جانے سے پہلے اس کے پاس آیا۔ اویس نے کہا کہ یہ تیری عادت نہیں ہے، تیرے لیے کیا ظاہر ہوا؟ اس نے کہا کہ تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں ! مجھے عمر رضی اللہ عنہ ملے تھے اور یہ یہ باتیں کی ہیں، تم میرے لیے استغفار کرو، کہا کہ میں تیرے لیے قطعاً استغفار نہ کروں گا، حتی کہ اپنے اوپر فرض کر لو، کہ تم میرا مذاق نہیں اڑاؤ گے، اور جو کچھ عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کسی کے آگے ذکر بھی نہیں کرو گے۔ کہا کہ آپ سے یہ وعدہ رہا۔ کہا کہ اس نے اس کے لیے استغفار کیا۔ اسیر نے کہا کہ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اس کا قصہ کوفے میں پھیل گیا۔ کہا: میں اس کے پاس رہا اور کہا: اے میرے بھائی! میں نہیں سمجھتا کہ تم عجب میں مبتلا ہو اور ہم قطعاً اس کا خیال بھی نہیں رکھتے تھے۔ کہا کہ اس میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ جسے میں لوگوں میں پہنچاتا پھروں، ہر بندے کو اس کے عمل کی جزا ہی ملتی ہے۔ کہا جب بات پھیل گئی تو وہ بھاگا اور چلا گیا۔
تشریح :
(1).... اس حدیث میں اویس قرنی رحمہ اللہ کی فضیلت کا بیان ہے۔
(2) .... ان کی کنیت ابو عمرو اور نام اویس بن عامر ہے۔( صحیح مسلم : 6492۔)
(3) .... قرنی، قرن کی طر ف منسوب ہے، جو کہ مراد کا بطن ہے۔ قرن کا پورا نام قرن بن رومان بن ناجیہ بن مراد ہے۔
(4) .... مراد،اس کا نام ہے، جابر بن مالک بن اود بن یشجب بن یعرب بن زید بن کہلان بن سبا۔
(5).... جوہری کی ’’الصحاح‘‘ میں ہے کہ قرنی ’’قرن المنازل‘‘ کی طر ف منسوب ہے جو کہ اہل نجد کے لیے احرام کے میقات میں سے ایک معروف پہاڑ ہے، لیکن یہ قطعاً غلط ہے۔( شرح صحیح مسلم : 2؍311۔)
(6).... اویس قرنی تابعین میں سے ہیں، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے فرماتے ہوئے سنا:
((اِنَّ خَیْرَ التَّابِعِینَ رَجُلٌ یُقَالُ لَهٗ اُوَیْسٌ....)) (صحیح مسلم : 6491۔)
’’بے شک تابعین میں سے سب سے زیادہ خیر والاایک آدمی ہوگا، جس کا نام اویس ہے....‘‘
شبہ: .... علامہ وحید الزماں رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے اور اسلام لاچکے تھے، پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مشرف نہیں ہوئے۔ اس لیے تابعین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔‘‘ (اردو صحیح مسلم از علامہ وحید الزماں، ص : 194۔)
ازالہ: .... لیکن مذکورہ بالا حدیث میں اویس قرنی رحمہ اللہ کو تابعی قرار دیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان نہیں ہوئے، اگر ہوئے ہوتے تو ان کی مخضرم کہا جاتا نہ کہ تابعی۔
(7) .... کہا جاتا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ کو تابعین میں سب سے افضل قرار دیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ علوم شرعیہ، تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ میں افضل تھے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خیر و بھلائی میں بلکہ وہ اویس قرنی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لفظ میں ظاہر معجزہ ہے۔( شرح صحیح مسلم : 2؍311۔)
(8) .... اس حدیث سے پتہ چلا کہ نیک لوگوں سے دعا کرانی چاہیے، اگرچہ طالب افضل ہی ہو۔
(9) .... اویس قرنی کی سادہ لوحی اور عدم شہرت کے باعث ایک شخص ان کو حقیر سمجھتا اور مذاق اڑاتا، اہل اللہ ایسے ہی گم نام ہوتے ہیں اور اپنے اور اپنے رب تعالیٰ کے درمیان کا راز فاش نہیں کرتے۔
(10) .... اویس قرنی رحمہ اللہ کے قصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کی صداقت کی شکل میں کئی معجزے ہیں۔ (تلك عشرة کاملة)
تخریج :
زیادات الزهد، ابن مبارك : 59، حلیة الأولیاء،ا بو نعیم : 2؍89، الزهد، ابن مبارك : 293، صحیح مسلم : 223۔225، طبقات ابن سعد : 6؍164۔
(1).... اس حدیث میں اویس قرنی رحمہ اللہ کی فضیلت کا بیان ہے۔
(2) .... ان کی کنیت ابو عمرو اور نام اویس بن عامر ہے۔( صحیح مسلم : 6492۔)
(3) .... قرنی، قرن کی طر ف منسوب ہے، جو کہ مراد کا بطن ہے۔ قرن کا پورا نام قرن بن رومان بن ناجیہ بن مراد ہے۔
(4) .... مراد،اس کا نام ہے، جابر بن مالک بن اود بن یشجب بن یعرب بن زید بن کہلان بن سبا۔
(5).... جوہری کی ’’الصحاح‘‘ میں ہے کہ قرنی ’’قرن المنازل‘‘ کی طر ف منسوب ہے جو کہ اہل نجد کے لیے احرام کے میقات میں سے ایک معروف پہاڑ ہے، لیکن یہ قطعاً غلط ہے۔( شرح صحیح مسلم : 2؍311۔)
(6).... اویس قرنی تابعین میں سے ہیں، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے فرماتے ہوئے سنا:
((اِنَّ خَیْرَ التَّابِعِینَ رَجُلٌ یُقَالُ لَهٗ اُوَیْسٌ....)) (صحیح مسلم : 6491۔)
’’بے شک تابعین میں سے سب سے زیادہ خیر والاایک آدمی ہوگا، جس کا نام اویس ہے....‘‘
شبہ: .... علامہ وحید الزماں رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ’’یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے اور اسلام لاچکے تھے، پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مشرف نہیں ہوئے۔ اس لیے تابعین میں ان کا شمار ہوتا ہے۔‘‘ (اردو صحیح مسلم از علامہ وحید الزماں، ص : 194۔)
ازالہ: .... لیکن مذکورہ بالا حدیث میں اویس قرنی رحمہ اللہ کو تابعی قرار دیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان نہیں ہوئے، اگر ہوئے ہوتے تو ان کی مخضرم کہا جاتا نہ کہ تابعی۔
(7) .... کہا جاتا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ وغیرہ نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ کو تابعین میں سب سے افضل قرار دیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ سعید بن مسیب رحمہ اللہ علوم شرعیہ، تفسیر، حدیث، فقہ وغیرہ میں افضل تھے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک خیر و بھلائی میں بلکہ وہ اویس قرنی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس لفظ میں ظاہر معجزہ ہے۔( شرح صحیح مسلم : 2؍311۔)
(8) .... اس حدیث سے پتہ چلا کہ نیک لوگوں سے دعا کرانی چاہیے، اگرچہ طالب افضل ہی ہو۔
(9) .... اویس قرنی کی سادہ لوحی اور عدم شہرت کے باعث ایک شخص ان کو حقیر سمجھتا اور مذاق اڑاتا، اہل اللہ ایسے ہی گم نام ہوتے ہیں اور اپنے اور اپنے رب تعالیٰ کے درمیان کا راز فاش نہیں کرتے۔
(10) .... اویس قرنی رحمہ اللہ کے قصے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئیوں کی صداقت کی شکل میں کئی معجزے ہیں۔ (تلك عشرة کاملة)