مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 33

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، نَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ بِشْرٍ التَّغْلِبِيِّ، قَالَ: كَانَ أَبِي، جَلِيسًا لِأَبِي الدَّرْدَاءِ بِدِمِشْقَ، وَكَانَ بِدِمِشْقَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْحَنْظَلِيَّةِ، وَكَانَ رَجُلًا مُتَوَحِّدًا قَلَّمَا يُجَالِسُ النَّاسَ، إِنَّمَا هُوَ فِي صَلَاةٍ، فَإِذَا انْصَرَفَ فَإِنَّمَا هُوَ يُسَبِّحُ وَيُكَبِّرُ وَيُهَلِّلُ حَتَّى يَأْتِيَ أَهْلَهُ، فَمَرَّ بِنَا يَوْمًا وَنَحْنُ عِنْدَ أَبِي الدَّرْدَاءِ فَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ أَبُو الدَّرْدَاءِ: كَلِمَةً تَنْفَعُنَا وَلَا تَضُرُّكَ؟ فَقَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّكُمْ قَادِمُونَ عَلَى إِخْوَانِكُمْ، فَأَصْلِحُوا لِبَاسَكُمْ وَأَصْلِحُوا رِحَالَكُمْ حَتَّى تَكُونُوا شَامَةً فِي النَّاسِ، إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَالتَّفَحُّشَ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 33

کتاب باب قیس بن بشر تغلبی نے کہا کہ میرا باپ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کا دمشق میں ہم نشین تھا اور دمشق میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک آدمی تھا، جسے ابن حنظلیہ رحمہ اللہ کہا جاتا تھا،وہ تنہائی پسند تھے اور کم ہی لوگوں کے ساتھ مجلس اختیار کیا کرتے تھے، وہ صرف نماز میں ہوتے، جب نماز سے پھرتے تو (ان کا کام(بس سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کہنا ہوتا، یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کے پاس آجاتے، ایک دن وہ ہمارے پاس سے گزرے اور ہم ابو درداء رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، انہوں نے سلام کیا تو ان سے ابودردا رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں کوئی بات بتائیں جو ہمیں فائدہ دے اور آپ رضی اللہ عنہ کو نقصان نہ دے۔ کہا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک تم اپنے بھائیوں پر آنے والے ہو، سو تم اپنے لباس درست رکھو اور اپنی سواریاں درست رکھو، یہاں تک کہ ایسے ہو جاؤ جیسے لوگوں میں بہت نمایاں ہو، بے شک اللہ بے حیائی کو اور بہ تکلف فحاشی کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
تشریح : (1)اس حدیث میں لوگوں سے ملاقات کے وقت بالخصوص خوب صورت لباس زیب تن کرنے، سواری کو سنوارنے اور عمدہ ہیئت و حالت اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس بارے تغافل برتنے کو فحاشی اور بے حیائی سے تعبیر کیا ہے۔ زلف برہم کے نہیں قائل ہم اہتمام آخر اہتمام ہوتا ہے (2) .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود خاص مواقع پر عمدہ لباس وغیرہ کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی اس عادت مبارکہ سے خوب واقف تھے، چنانچہ صحیح بخاری ’’باب التجمل للوفود‘‘ ’’وفود کے لیے آراستہ ہونے کا بیان‘‘ میں امام بخاری ذیل کی حدیث لائے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیا ن کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بازار میں برائے فروخت ریشم کا ایک جوڑا پایا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ جوڑا خرید لیں، عید اوروفد کے لیے اس کے ساتھ آراستہ ہوا کریں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک یہ اس کا لباس ہے جس کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘ یا ’’یہ وہ پہنتا ہے جس کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘ پھر وہ ٹھہرے جتنا اللہ نے چاہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ریشم کا ایک جبہ بھیجا تو وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’بے شک یہ اس کا لباس ہے جس کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘ یا ’’یہ وہ پہنتا ہے جس کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف بھیج دیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو بیچ دو یا اس کے ساتھ اپنی بعض ضرورت پوری کر لو۔‘‘( صحیح بخاري: 3054۔)
تخریج : مستدرك حاکم : 2؍91، 4؍183، سنن أبي داؤد : 11؍146 (4089)، مسند احمد : 4؍180، الزهد، ابن مبارك : 292۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ (1)اس حدیث میں لوگوں سے ملاقات کے وقت بالخصوص خوب صورت لباس زیب تن کرنے، سواری کو سنوارنے اور عمدہ ہیئت و حالت اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس بارے تغافل برتنے کو فحاشی اور بے حیائی سے تعبیر کیا ہے۔ زلف برہم کے نہیں قائل ہم اہتمام آخر اہتمام ہوتا ہے (2) .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بذات خود خاص مواقع پر عمدہ لباس وغیرہ کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی اس عادت مبارکہ سے خوب واقف تھے، چنانچہ صحیح بخاری ’’باب التجمل للوفود‘‘ ’’وفود کے لیے آراستہ ہونے کا بیان‘‘ میں امام بخاری ذیل کی حدیث لائے ہیں، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیا ن کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بازار میں برائے فروخت ریشم کا ایک جوڑا پایا تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ جوڑا خرید لیں، عید اوروفد کے لیے اس کے ساتھ آراستہ ہوا کریں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک یہ اس کا لباس ہے جس کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘ یا ’’یہ وہ پہنتا ہے جس کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘ پھر وہ ٹھہرے جتنا اللہ نے چاہا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ریشم کا ایک جبہ بھیجا تو وہ اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’بے شک یہ اس کا لباس ہے جس کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘ یا ’’یہ وہ پہنتا ہے جس کا کوئی حصہ نہیں۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری طرف بھیج دیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کو بیچ دو یا اس کے ساتھ اپنی بعض ضرورت پوری کر لو۔‘‘( صحیح بخاري: 3054۔)