كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو [ص:17] بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي يُونُسَ مَوْلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: ((مَا رَأَيْتُ شَيْئًا أَحْسَنَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّ الْأَرْضَ تُطْوَى لَهُ، إِنَّا لَنُجْهِدُ، وَإِنَّهُ لَغَيْرُ مُكْتَرِثٍ))
کتاب
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسین کوئی چیز نہیں دیکھی، گویا کہ سورج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے میں چل رہا ہو اور میں نے کسی کو نہیں دیکھا جو چلنے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ تیز ہو، گویا زمین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لپیٹ دی جاتی ہے، بے شک ہم تھک جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قطعاً دشواری نہ ہوتی۔
تشریح :
(1).... اس حدیث میں رخ پر انوار کی زیبائی کا تذکرہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہر طرح کے ظاہری و باطنی جمالات کا منبع تھی۔
حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات باصفات اوصاف خَلقی، و خُلقی دونوں سے مزین و آراستہ تھی۔ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ایسے قادر الکلام، جہاں دیدہ شاعر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تڑپ کر بے ساختہ کہا:
وأحسن منك لم ترقط عینی
وأجمل منك لم تلد النساء
خلقت مبرء ا من کل عیب
کأنك قد خلقت کما تشاء
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسین میری نگاہ نے کبھی دیکھا نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوب صورت کسی ماں نے جنا ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے،گویا ایسے پیدا کیے گئے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود چاہتے تھے۔‘‘
(2) .... مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جمال خلقی اور کمال خلق سے متصف تھے جو حیطۂ بیان سے باہر ہے۔ اس جمال و کمال کا اثر یہ تھا کہ دل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور قدر ومنزلت کے جذبات سے خود بخود لبریز ہوجاتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور اجلال و تکریم میں لوگوں نے ایسی ایسی فداکاری و جاں نثاری کا ثبوت دیا جس کی نظیر دنیا کی کسی اور شخصیت کے سلسلے میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء اور ہم نشین وارفتگی کی حد تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گوارا نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خراش تک آجائے خواہ اس کے لیے ان کی گردنیں ہی کیوں نہ کاٹ دی جائیں۔ اس طرح کی محبت کی وجہ یہی تھی کہ عادۃً جن کمالات پر جان چھڑکی جاتی ہے، ان کمالات سے جس قدر حصہ وافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا تھاکسی اور انسان کو نہ ملا۔ ذیل میں ہم عاجزی و بے مائیگی کے اعتراف کے ساتھ ان روایات کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں، جن کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال و کمال سے ہے۔
(3)حلیۂ مبارک: .... سیدنا علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ لمبے تڑنگے تھے نہ ناٹے کھوٹے، لوگوں کے حساب سے درمیانہ قد کے تھے۔ بال نہ زیادہ گھنگھریالے تھے نہ بالکل کھڑے کھڑے بلکہ دونوں کے بیچ بیچ کی کیفیت تھی۔ رخسار نہ زیادہ پرگوشت تھا، نہ ٹھوڑی چھوٹی اور پیشانی پست، چہرہ کسی قدر گولائی لیے ہوئے تھے، رنگ گورا گلابی، آنکھیں سرخی مائل، پلکیں لمبی، جوڑوں اور مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی، سینے پر ناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر، بقیہ جسم بال سے خالی، ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں پرگوشت، چلتے تو قدرے جھٹکے سے پاؤں اٹھاتے اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پر چل رہے ہیں۔ جب کسی طرف توجہ فرماتے تو پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوتے، دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے انبیاء کے خاتم تھے۔ سب سے زیادہ سخی دست اور سب سے بڑھ کر جرأت مند، سب سے زیادہ صادق اللہجہ اور سب سے بڑھ کر عہد وپیمان کے پابند وفا۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے شریف ساتھی۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا ہیبت زدہ ہوجاتا۔ جو جان پہچان کے ساتھ ملتا محبوب رکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہیں دیکھا۔( سیرت ابن ھشام : 1؍401، 402، ترمذي مع شرح تحفة الأحوذي : 4؍303۔)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سربڑا تھا، جوڑوں کی ہڈیاں بھاری بھاری تھیں، سینے پر بالوں کی لمبی لکیر تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تو قدرے جھک کے چلتے گویا کسی ڈھلوان سے اتر رہے ہیں۔( ایضاً ترمذي مع شرح۔)
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دہانہ کشادہ تھا، آنکھیں ہلکی سرخی لیے ہوئے اور ایڑیاں باریک۔ (صحیح مسلم : 2؍258۔)
سیدنا ابو الطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گورے رنگ پر مسرت چہرے اور میانہ قد و قامت کے تھے۔( صحیح مسلم : 2؍258۔)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں اور رنگ چمک دار، نہ خالص سفیدی نہ گندم گوں، وفات کے وقت تک سر اور چہرے کے بیس بال بھی سفید نہ ہوئے تھے۔( صحیح بخاري: 1؍502۔)
صرف کنپٹی کے بالوں میں کچھ سفیدی تھی اور چند بال سر کے سفید تھے۔( صحیح بخاري: 1؍502، صحیح مسلم : 2؍259۔)
سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ کے نیچے عنفقہ (ڈاڑھی بچہ)میں سفیدی دیکھی۔( صحیح بخاري: 1؍501، 502۔)
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیکر درمیانی تھا۔ دونوں کندھوں کے درمیان دوری تھی۔ بال دونوں کندھوں کی لو تک پہنچتے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے دیکھا۔ کبھی کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوب صورت نہ دیکھی۔( صحیح بخاري: 1؍502۔)
پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے، اس لیے بال میں کنگھی کرتے تو مانگ نہ نکالتے، لیکن بعد میں مانگ نکالا کرتے تھے۔( صحیح بخاري: 1؍502۔)
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سب سے زیادہ خوب صورت تھاا ور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سب سے زیادہ بہترتھے۔( صحیح بخاري: 1؍502، صحیح مسلم : 2؍258۔)
ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تلوار جیسا تھا، انہوں نے کہا: نہیں بلکہ چاند جیسا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ گول تھا۔( صحیح بخاري: 1؍502، صحیح مسلم : 2؍259۔)
ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو لگتا کہ تم نے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا ہے۔( مسند دارمي بحوالہ مشکوٰۃ : 2؍517۔)
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سرخ جوڑا تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا اور چاند کو دیکھتا، آخر (میں اس نتیجے پر پہنچا کہ(آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے زیادہ خوب صورت ہیں۔( شمائل ترمذي،ص : 2، مشکوۃ : 2؍517۔)
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ دمک اٹھتا، گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔( صحیح بخاري: 1؍502۔)
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف فرما تھے، پسینہ آیا تو چہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں، یہ کیفیت دیکھ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوکبیر ہذلی کا یہ شعر پڑھا:
وإذا نظرت الی أسرة وجهه
برقت کبرق العارض المتهلل(رحمة اللعالمین : 2؍172۔)
’’جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو۔‘‘
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے:
أمین مصطفیٰ بالخیر یدعو
کضوء البدر زایله الظلام (خلاصة السیر، ص : 20۔)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم امین ہیں، چنیدہ اور برگزیدہ ہیں، خیر کی دعوت دیتے ہیں، گویا ماہ کامل کی روشنی میں جس سے تاریکی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے۔‘‘
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زہیر کا یہ شعر پڑھتے جوہرم بن سنان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ
لو کنت من شئی سوی البشر
کنت المضی للیلة البدر
’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر کے سوا کسی اور چیز سے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی چودہویں کی رات کو روشن کرتے۔‘‘
پھر فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی تھے۔( خلاصة الیسر ص : 20۔)
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہوتے تو چہرہ سرخ ہوجاتا گویا دونوں رخساروں میں دانۂ انار نچوڑ دیا گیا ہے۔( مشکوٰة : 1؍22۔)
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنستے تو صرف تبسم فرماتے (آنکھیں سرمگیں تھیں (تم دیکھتے تو کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھوں میں سرمہ لگا رکھا ہے، حالانکہ سرمہ نہ لگا ہوتا۔( جامع ترمذي مع شرح تحفةالأحوذي : 4؍306۔)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کے دونوں دانت الگ الگ تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو ان دانتوں کے درمیان سے نور جیسا نکلتا دکھائی دیتا۔( جامع ترمذي، مشکوٰة : 2؍518۔)
گردن گویا چاند کی صفائی لیے ہوئے گڑیا کی گردن تھی، پلکیں طویل، ڈاڑھی گھنی، پیشانی کشادہ، ابرو پیوستہ اور ایک دوسرے سے الگ، ناک اونچی، رخسار ہلکے، سینہ سے ناف تک چھڑی کی طرح دوڑا ہوا بال اور اس کے سوا شکم اور سینے پر کہیں بال نہیں۔ البتہ بازو اور مونڈھوں پر بال تھے۔ شکم اور سینہ برابر، سینہ مسطح اور کشادہ، کلائیاں بڑی بڑی، ہتھیلیاں کشادہ، قد کھڑا، تلوے خالی، اعضاء بڑے بڑے، جب چلتے تو جھٹکے کے ساتھ چلتے، قدرے جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھتے اور سہل رفتار سے چلتے۔( خلاصة السیر، ص : 19،20۔)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حریر و دیباج نہیں چھوا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور نہ کبھی کوئی عنبر یا مشک یا کوئی ایسی خوشبو سونگھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے بہتر ہو۔( صحیح بخاري: 1؍503، صحیح مسلم : 2؍257۔)
سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے چہرے پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔( صحیح بخاري: 1؍502۔)
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ .... جو بچے تھے .... کہتے ہیں : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رخسار پر ہاتھ پھیرا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور ایسی خوشبو محسوس کی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عطار کے عطردان سے نکالا ہے۔‘‘( صحیح مسلم : 2؍256۔)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ گویا موتی ہوتا تھا اور سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ پسینہ ہی سب سے عمدہ خوشبو ہوا کرتی تھی۔( صحیح مسلم : 2؍256۔)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی راستے سے تشریف لے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور گزرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم یا پسینے کی خوشبو کی وجہ سے جان جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے تشریف لے گئے ہیں۔‘‘( مشکوٰۃ : 2؍517۔)
یہاں سے گزر گیا ہے کوئی
بتائے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی، جو کبوتر کے انڈے جیسی اور جسم مبارک ہی کے مشابہ تھے، یہ بائیں کندھے کی کری (نرم ہڈی)کے پاس تھی۔ اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹ تھا۔( صحیح مسلم : 2؍259، 260، الرحیق المختوم، ص : 644۔648۔)
تخریج :
مسند احمد : 2؍350، 380، الزهد، ابن مبارك : 288، سلسلة الضعیفة: 4213۔
(1).... اس حدیث میں رخ پر انوار کی زیبائی کا تذکرہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی ہر طرح کے ظاہری و باطنی جمالات کا منبع تھی۔
حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات باصفات اوصاف خَلقی، و خُلقی دونوں سے مزین و آراستہ تھی۔ سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ایسے قادر الکلام، جہاں دیدہ شاعر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تڑپ کر بے ساختہ کہا:
وأحسن منك لم ترقط عینی
وأجمل منك لم تلد النساء
خلقت مبرء ا من کل عیب
کأنك قد خلقت کما تشاء
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسین میری نگاہ نے کبھی دیکھا نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خوب صورت کسی ماں نے جنا ہی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے،گویا ایسے پیدا کیے گئے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود چاہتے تھے۔‘‘
(2) .... مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جمال خلقی اور کمال خلق سے متصف تھے جو حیطۂ بیان سے باہر ہے۔ اس جمال و کمال کا اثر یہ تھا کہ دل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور قدر ومنزلت کے جذبات سے خود بخود لبریز ہوجاتے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور اجلال و تکریم میں لوگوں نے ایسی ایسی فداکاری و جاں نثاری کا ثبوت دیا جس کی نظیر دنیا کی کسی اور شخصیت کے سلسلے میں پیش نہیں کی جا سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفقاء اور ہم نشین وارفتگی کی حد تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گوارا نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خراش تک آجائے خواہ اس کے لیے ان کی گردنیں ہی کیوں نہ کاٹ دی جائیں۔ اس طرح کی محبت کی وجہ یہی تھی کہ عادۃً جن کمالات پر جان چھڑکی جاتی ہے، ان کمالات سے جس قدر حصہ وافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوا تھاکسی اور انسان کو نہ ملا۔ ذیل میں ہم عاجزی و بے مائیگی کے اعتراف کے ساتھ ان روایات کا خلاصہ پیش کر رہے ہیں، جن کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال و کمال سے ہے۔
(3)حلیۂ مبارک: .... سیدنا علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ لمبے تڑنگے تھے نہ ناٹے کھوٹے، لوگوں کے حساب سے درمیانہ قد کے تھے۔ بال نہ زیادہ گھنگھریالے تھے نہ بالکل کھڑے کھڑے بلکہ دونوں کے بیچ بیچ کی کیفیت تھی۔ رخسار نہ زیادہ پرگوشت تھا، نہ ٹھوڑی چھوٹی اور پیشانی پست، چہرہ کسی قدر گولائی لیے ہوئے تھے، رنگ گورا گلابی، آنکھیں سرخی مائل، پلکیں لمبی، جوڑوں اور مونڈھوں کی ہڈیاں بڑی بڑی، سینے پر ناف تک بالوں کی ہلکی سی لکیر، بقیہ جسم بال سے خالی، ہاتھ اور پاؤں کی انگلیاں پرگوشت، چلتے تو قدرے جھٹکے سے پاؤں اٹھاتے اور یوں چلتے گویا کسی ڈھلوان پر چل رہے ہیں۔ جب کسی طرف توجہ فرماتے تو پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہوتے، دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سارے انبیاء کے خاتم تھے۔ سب سے زیادہ سخی دست اور سب سے بڑھ کر جرأت مند، سب سے زیادہ صادق اللہجہ اور سب سے بڑھ کر عہد وپیمان کے پابند وفا۔ سب سے زیادہ نرم طبیعت اور سب سے شریف ساتھی۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا ہیبت زدہ ہوجاتا۔ جو جان پہچان کے ساتھ ملتا محبوب رکھتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصف بیان کرنے والا یہی کہہ سکتا ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا نہیں دیکھا۔( سیرت ابن ھشام : 1؍401، 402، ترمذي مع شرح تحفة الأحوذي : 4؍303۔)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سربڑا تھا، جوڑوں کی ہڈیاں بھاری بھاری تھیں، سینے پر بالوں کی لمبی لکیر تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے تو قدرے جھک کے چلتے گویا کسی ڈھلوان سے اتر رہے ہیں۔( ایضاً ترمذي مع شرح۔)
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دہانہ کشادہ تھا، آنکھیں ہلکی سرخی لیے ہوئے اور ایڑیاں باریک۔ (صحیح مسلم : 2؍258۔)
سیدنا ابو الطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گورے رنگ پر مسرت چہرے اور میانہ قد و قامت کے تھے۔( صحیح مسلم : 2؍258۔)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں اور رنگ چمک دار، نہ خالص سفیدی نہ گندم گوں، وفات کے وقت تک سر اور چہرے کے بیس بال بھی سفید نہ ہوئے تھے۔( صحیح بخاري: 1؍502۔)
صرف کنپٹی کے بالوں میں کچھ سفیدی تھی اور چند بال سر کے سفید تھے۔( صحیح بخاري: 1؍502، صحیح مسلم : 2؍259۔)
سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ کے نیچے عنفقہ (ڈاڑھی بچہ)میں سفیدی دیکھی۔( صحیح بخاري: 1؍501، 502۔)
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیکر درمیانی تھا۔ دونوں کندھوں کے درمیان دوری تھی۔ بال دونوں کندھوں کی لو تک پہنچتے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوسرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے دیکھا۔ کبھی کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوب صورت نہ دیکھی۔( صحیح بخاري: 1؍502۔)
پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل کتاب کی موافقت پسند کرتے تھے، اس لیے بال میں کنگھی کرتے تو مانگ نہ نکالتے، لیکن بعد میں مانگ نکالا کرتے تھے۔( صحیح بخاري: 1؍502۔)
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سب سے زیادہ خوب صورت تھاا ور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سب سے زیادہ بہترتھے۔( صحیح بخاري: 1؍502، صحیح مسلم : 2؍258۔)
ان سے دریافت کیا گیا کہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ تلوار جیسا تھا، انہوں نے کہا: نہیں بلکہ چاند جیسا تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ گول تھا۔( صحیح بخاري: 1؍502، صحیح مسلم : 2؍259۔)
ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اگر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے تو لگتا کہ تم نے طلوع ہوتے ہوئے سورج کو دیکھا ہے۔( مسند دارمي بحوالہ مشکوٰۃ : 2؍517۔)
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ایک بار چاندنی رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سرخ جوڑا تھا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا اور چاند کو دیکھتا، آخر (میں اس نتیجے پر پہنچا کہ(آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے زیادہ خوب صورت ہیں۔( شمائل ترمذي،ص : 2، مشکوۃ : 2؍517۔)
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے تو چہرہ دمک اٹھتا، گویا چاند کا ایک ٹکڑا ہے۔( صحیح بخاري: 1؍502۔)
ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف فرما تھے، پسینہ آیا تو چہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں، یہ کیفیت دیکھ کر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوکبیر ہذلی کا یہ شعر پڑھا:
وإذا نظرت الی أسرة وجهه
برقت کبرق العارض المتهلل(رحمة اللعالمین : 2؍172۔)
’’جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو وہ یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو۔‘‘
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر یہ شعر پڑھتے:
أمین مصطفیٰ بالخیر یدعو
کضوء البدر زایله الظلام (خلاصة السیر، ص : 20۔)
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم امین ہیں، چنیدہ اور برگزیدہ ہیں، خیر کی دعوت دیتے ہیں، گویا ماہ کامل کی روشنی میں جس سے تاریکی آنکھ مچولی کھیل رہی ہے۔‘‘
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زہیر کا یہ شعر پڑھتے جوہرم بن سنان کے بارے میں کہا گیا تھا کہ
لو کنت من شئی سوی البشر
کنت المضی للیلة البدر
’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بشر کے سوا کسی اور چیز سے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی چودہویں کی رات کو روشن کرتے۔‘‘
پھر فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی تھے۔( خلاصة الیسر ص : 20۔)
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہوتے تو چہرہ سرخ ہوجاتا گویا دونوں رخساروں میں دانۂ انار نچوڑ دیا گیا ہے۔( مشکوٰة : 1؍22۔)
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیاں قدرے پتلی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنستے تو صرف تبسم فرماتے (آنکھیں سرمگیں تھیں (تم دیکھتے تو کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھوں میں سرمہ لگا رکھا ہے، حالانکہ سرمہ نہ لگا ہوتا۔( جامع ترمذي مع شرح تحفةالأحوذي : 4؍306۔)
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کے دونوں دانت الگ الگ تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو ان دانتوں کے درمیان سے نور جیسا نکلتا دکھائی دیتا۔( جامع ترمذي، مشکوٰة : 2؍518۔)
گردن گویا چاند کی صفائی لیے ہوئے گڑیا کی گردن تھی، پلکیں طویل، ڈاڑھی گھنی، پیشانی کشادہ، ابرو پیوستہ اور ایک دوسرے سے الگ، ناک اونچی، رخسار ہلکے، سینہ سے ناف تک چھڑی کی طرح دوڑا ہوا بال اور اس کے سوا شکم اور سینے پر کہیں بال نہیں۔ البتہ بازو اور مونڈھوں پر بال تھے۔ شکم اور سینہ برابر، سینہ مسطح اور کشادہ، کلائیاں بڑی بڑی، ہتھیلیاں کشادہ، قد کھڑا، تلوے خالی، اعضاء بڑے بڑے، جب چلتے تو جھٹکے کے ساتھ چلتے، قدرے جھکاؤ کے ساتھ آگے بڑھتے اور سہل رفتار سے چلتے۔( خلاصة السیر، ص : 19،20۔)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی حریر و دیباج نہیں چھوا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور نہ کبھی کوئی عنبر یا مشک یا کوئی ایسی خوشبو سونگھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشبو سے بہتر ہو۔( صحیح بخاري: 1؍503، صحیح مسلم : 2؍257۔)
سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ اپنے چہرے پر رکھا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور مشک سے زیادہ خوشبودار تھا۔( صحیح بخاري: 1؍502۔)
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ .... جو بچے تھے .... کہتے ہیں : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے رخسار پر ہاتھ پھیرا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایسی ٹھنڈک اور ایسی خوشبو محسوس کی گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عطار کے عطردان سے نکالا ہے۔‘‘( صحیح مسلم : 2؍256۔)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ گویا موتی ہوتا تھا اور سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ یہ پسینہ ہی سب سے عمدہ خوشبو ہوا کرتی تھی۔( صحیح مسلم : 2؍256۔)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی راستے سے تشریف لے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اور گزرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم یا پسینے کی خوشبو کی وجہ سے جان جاتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سے تشریف لے گئے ہیں۔‘‘( مشکوٰۃ : 2؍517۔)
یہاں سے گزر گیا ہے کوئی
بتائے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر نبوت تھی، جو کبوتر کے انڈے جیسی اور جسم مبارک ہی کے مشابہ تھے، یہ بائیں کندھے کی کری (نرم ہڈی)کے پاس تھی۔ اس پر مسوں کی طرح تلوں کا جمگھٹ تھا۔( صحیح مسلم : 2؍259، 260، الرحیق المختوم، ص : 644۔648۔)