كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، سَمِعَهُ يُحَدِّثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ أَحَبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ إِلَّا لِلَّهِ، وَمَنْ كَانَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَمَنْ كَانَ يُقْذَفُ فِي النَّارِ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَرْجِعَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ إِذْ أَنْقَذَهُ اللَّهُ مِنْهُ))
کتاب
باب
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین چیزیں جس میں ہوئیں وہ ان کی وجہ سے ایمان کی مٹھاس پا لے گا، جو کسی آدمی سے محبت کرے، تو اس سے صرف اللہ کے لیے محبت کرتا ہے اور وہ شخص کہ اسے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سوا سب سے زیادہ پسندہوں اور وہ شخص کہ جسے آگ میں پھینکا جانا، کفرمیں لوٹنے سے زیادہ پسند ہو، اس کے بعد کہ اللہ نے اسے اس سے بچالیا۔‘‘
تشریح :
(1).... ایک دوسری حدیث میں الفاظ ہیں : ((مِنْ أَنْ یَّرْجِعَ یَهُودِیًّا أَوْ نَصْرَانِیًّا۔))( صحیح مسلم : 43۔) ’’اس بات سے کہ وہ لوٹے یہودی یا نصرانی بن کر۔‘‘
(2) .... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ عظیم حدیث اسلام کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے۔ اہل علم نے کہا کہ ایمان کی مٹھاس کا مطلب ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کے لیے مشقتیں برداشت کرنا اور نیکیوں میں لذت حاصل کرنا اور دنیا کے سازو سامان پر اسے ترجیح دینا اور بندے کی اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے محبت اس کی اطاعت گزاری کرنے اور مخالفت ترک کرنے کے ساتھ ہے، ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث گزشتہ حدیث کی ہم معنی ہے کہ اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے پر،ا سلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہو گیا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت، آدمی سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محبت اور کفر کی طرف لوٹنے کی کراہت، صرف اس شخص کے لیے درست ہو سکتی ہے، جس کا ایمان کے ساتھ یقین پختہ، دل مطمئن اور سینہ کھلا ہو، نیز ایمان اس کے گوشت اور خون میں مل کر رگ و پے میں سما گیا ہو، یہی وہ شخص ہے، جس نے ایمان کی حلاوت پا لی، کہاکہ اللہ کے لیے محبت، اللہ سے محبت کے ثمرات میں سے ہے، بعض نے کہا کہ محبت کہتے ہیں دل کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پسند کے موافق کرنا۔ پس وہی پسند کرے جو وہ پسند کرے اور اسے ناپسند کرے جسے وہ ناپسند کرے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ محبت کی اصل اس چیز کی طرف میلان کرنا ہے جو محب کے موافق ہو، پھر میلان کبھی اس چیز کے لیے ہوتا ہے جس سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے اور اسے اچھا گردانتا ہے، جس طرح کے خوب صورت شکل، آواز اورکھانا وغیرہ اور کبھی اس سے اپنی عقل کے ساتھ لذت اندوز ہوتا ہے، پوشیدہ معانی کی وجہ سے، جس طرح کے صالحین، علماء اوراہل فضیلت سے مطلق محبت ہے اور کبھی یہ محبت اس کے احسانات نیز اس سے مضرتوں کو دور کرنے کے باعث ہوتی ہے اور یہ سب معانی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہیں، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپے میں ظاہری اور باطنی جمال جمع کر دیا گیا ہے، اسی طرح ہیبت و حلال کی اقسام، فضائل کی انواع اور جمیع مسلمانوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان کہ جس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صراط مستقیم،دائمی نعمتوں اور جہنم سے دوری کی ہدایت دی۔
(3) .... بعض نے اشارہ کیا کہ بے شک یہ سب اللہ تعالیٰ کے حق میں متصور ہے، کیونکہ تمام خیر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
(4)امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرنا اسلام کے واجبات میں سے ہے۔ (شرح صحیح مسلم : 1؍49۔)
تخریج :
صحیح بخاري: 1؍46، 10؍380، صحیح مسلم : 2؍14، سنن ابن ماجة: 4033، مسند احمد : 3؍103، 114، 172، 174، 230، 248، 275، 288، صحیح ابن حبان : 1؍269، طبراني صغیر : 1؍258، تاریخ بغداد : 2؍199، حلیة الأولیاء، ابو نعیم : 1؍27، 2؍288، 8؍390۔
(1).... ایک دوسری حدیث میں الفاظ ہیں : ((مِنْ أَنْ یَّرْجِعَ یَهُودِیًّا أَوْ نَصْرَانِیًّا۔))( صحیح مسلم : 43۔) ’’اس بات سے کہ وہ لوٹے یہودی یا نصرانی بن کر۔‘‘
(2) .... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہ عظیم حدیث اسلام کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد ہے۔ اہل علم نے کہا کہ ایمان کی مٹھاس کا مطلب ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضامندی کے لیے مشقتیں برداشت کرنا اور نیکیوں میں لذت حاصل کرنا اور دنیا کے سازو سامان پر اسے ترجیح دینا اور بندے کی اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے محبت اس کی اطاعت گزاری کرنے اور مخالفت ترک کرنے کے ساتھ ہے، ایسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث گزشتہ حدیث کی ہم معنی ہے کہ اس شخص نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا جو اللہ کے رب ہونے پر،ا سلام کے دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہو گیا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی محبت، آدمی سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محبت اور کفر کی طرف لوٹنے کی کراہت، صرف اس شخص کے لیے درست ہو سکتی ہے، جس کا ایمان کے ساتھ یقین پختہ، دل مطمئن اور سینہ کھلا ہو، نیز ایمان اس کے گوشت اور خون میں مل کر رگ و پے میں سما گیا ہو، یہی وہ شخص ہے، جس نے ایمان کی حلاوت پا لی، کہاکہ اللہ کے لیے محبت، اللہ سے محبت کے ثمرات میں سے ہے، بعض نے کہا کہ محبت کہتے ہیں دل کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی پسند کے موافق کرنا۔ پس وہی پسند کرے جو وہ پسند کرے اور اسے ناپسند کرے جسے وہ ناپسند کرے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ محبت کی اصل اس چیز کی طرف میلان کرنا ہے جو محب کے موافق ہو، پھر میلان کبھی اس چیز کے لیے ہوتا ہے جس سے انسان لطف اندوز ہوتا ہے اور اسے اچھا گردانتا ہے، جس طرح کے خوب صورت شکل، آواز اورکھانا وغیرہ اور کبھی اس سے اپنی عقل کے ساتھ لذت اندوز ہوتا ہے، پوشیدہ معانی کی وجہ سے، جس طرح کے صالحین، علماء اوراہل فضیلت سے مطلق محبت ہے اور کبھی یہ محبت اس کے احسانات نیز اس سے مضرتوں کو دور کرنے کے باعث ہوتی ہے اور یہ سب معانی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہیں، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپے میں ظاہری اور باطنی جمال جمع کر دیا گیا ہے، اسی طرح ہیبت و حلال کی اقسام، فضائل کی انواع اور جمیع مسلمانوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان کہ جس کے نتیجے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صراط مستقیم،دائمی نعمتوں اور جہنم سے دوری کی ہدایت دی۔
(3) .... بعض نے اشارہ کیا کہ بے شک یہ سب اللہ تعالیٰ کے حق میں متصور ہے، کیونکہ تمام خیر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
(4)امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرنا اسلام کے واجبات میں سے ہے۔ (شرح صحیح مسلم : 1؍49۔)