كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي سِنَانٍ الشَّامِيِّ ,عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي سَوْدَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: ((إِذَا عَادَ الْمُسْلِمُ أَخَاهُ أَوْ زَارَهُ , قَالَ اللَّهُ لَهُ: طِبْتَ وَطَابَ مَمْشَاكَ وَبَوَّأَكَ مَنْزِلًا فِي الْجَنَّةِ))
کتاب
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب مسلمان اپنے بھائی کی تیمار داری یا اس کے ساتھ ملاقات کرتا ہے تو اللہ اس لیے فرماتا ہے، تیرا دل اچھا ہوا، تیرا چلنا اچھا ہوا اور اس نے تجھے جنت میں ایک گھر کی جگہ مہیا فرمادی۔
تشریح :
(1) .... مریض کی بیمار پرسی کرنا ان چھ حقوق میں ہے جو ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر عائد کیے گئے ہیں۔ اس حدیث پاک میں اس کی تین فضیلتیں بھی بیان ہوئی ہیں۔ (1)عیادت کرنے والے کا دل اچھا ہے۔ (2)اس کا چلنا اچھا ہے۔ (3)اس کے لیے جنت میں ایک گھر کی نوید سنائی گئی ہے۔
(2) .... بیمار کی عیادت کرنے کے متعلق ایک حدیث میں یوں ہے:
((اِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ: یَاابْنَ آدَمَ! مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِی، قَالَ: یَارَبِّ! کَیْفَ اَعُودُكَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِینَ؟ قَالَ: اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِی فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہٗ، اَمَا عَلِمْتَ اَنَّكَ لَوْ عُدْتَهٗ لَوَجَدْتَنِی عِنْدَہٗ؟))( صحیح مسلم، حدیث : 2569۔)
’’بے شک اللہ عزوجل روز قیامت فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری تیمار داری نہ کی! بندہ کہے گا اے میرے رب! میں تیری بیمار پرسی کیسے کر سکتاتھا، تو تو تمام جہانوں کا پروردگار ہے؟ اللہ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہ تھاکہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا اور تو نے اس کی تیمار داری نہ کی تھی؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو یقینا مجھے اس کے پاس پاتا۔‘‘
(3) .... ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ لَمْ یَزَلْ فِیْ خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّی یَرْجِعَ))( صحیح مسلم، حدیث : 2565۔)
’’مسلمان جب اپنے بھائی کی تیمار داری کرتا ہے تو واپس آنے تک وہ جنت کے تازہ پھلوں کو چننے میں مصروف رہتا ہے۔‘‘
حدیث میں مسلمان بھائی سے ملاقات و زیارت کا بھی ذکر ہے، اس کی مزید فضیلت کے لیے درج ذیل حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں۔
تخریج :
جامع ترمذي، حدیث : 2008، مسند احمد (الفتح الربانی): 190، 191، سنن ابن ماجة، حدیث : 1443، سلسلة الصحیحة، حدیث : 2632۔
(1) .... مریض کی بیمار پرسی کرنا ان چھ حقوق میں ہے جو ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر عائد کیے گئے ہیں۔ اس حدیث پاک میں اس کی تین فضیلتیں بھی بیان ہوئی ہیں۔ (1)عیادت کرنے والے کا دل اچھا ہے۔ (2)اس کا چلنا اچھا ہے۔ (3)اس کے لیے جنت میں ایک گھر کی نوید سنائی گئی ہے۔
(2) .... بیمار کی عیادت کرنے کے متعلق ایک حدیث میں یوں ہے:
((اِنَّ اللّٰهَ عَزَّ وَجَلَّ یَقُولُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ: یَاابْنَ آدَمَ! مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِی، قَالَ: یَارَبِّ! کَیْفَ اَعُودُكَ وَاَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِینَ؟ قَالَ: اَمَا عَلِمْتَ اَنَّ عَبْدِی فُلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْہٗ، اَمَا عَلِمْتَ اَنَّكَ لَوْ عُدْتَهٗ لَوَجَدْتَنِی عِنْدَہٗ؟))( صحیح مسلم، حدیث : 2569۔)
’’بے شک اللہ عزوجل روز قیامت فرمائے گا: اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوا تو نے میری تیمار داری نہ کی! بندہ کہے گا اے میرے رب! میں تیری بیمار پرسی کیسے کر سکتاتھا، تو تو تمام جہانوں کا پروردگار ہے؟ اللہ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہ تھاکہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا اور تو نے اس کی تیمار داری نہ کی تھی؟ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو یقینا مجھے اس کے پاس پاتا۔‘‘
(3) .... ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ لَمْ یَزَلْ فِیْ خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتَّی یَرْجِعَ))( صحیح مسلم، حدیث : 2565۔)
’’مسلمان جب اپنے بھائی کی تیمار داری کرتا ہے تو واپس آنے تک وہ جنت کے تازہ پھلوں کو چننے میں مصروف رہتا ہے۔‘‘
حدیث میں مسلمان بھائی سے ملاقات و زیارت کا بھی ذکر ہے، اس کی مزید فضیلت کے لیے درج ذیل حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں۔