كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ، حَدَّثَنِي فَضَالَةُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: ((أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِالْمُؤْمِنِ، مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَى أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ، وَالْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ، وَالْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهُ فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَالْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ الْخَطَايَا وَالذُّنُوبَ))
کتاب
باب
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: ’’کیا میں تمہیں مومن کے بارے میں خبر نہ دوں ؟ لوگ جس سے اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں بے خوف ہوں اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ سلامت ہوں اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے اور مہاجر وہ ہے جو گناہوں اور خطاؤں کو چھوڑ دے۔‘‘
تشریح :
(1).... مومن، مسلم، مجاہد اور مہاجر شرعی اصطلاحات ہیں۔ ان کے متعلق سطحی تعریف اور معلومات سے ہٹ کر، ان کی حقیقی روح سے متعارف کروایا جا رہا ہے کہ ان کا اصل مفہوم وہ نہیں جو عام لوگ سمجھتے ہیں اور ان میں مشہور ہے، بلکہ حقیقی مطلب وہ ہے جو اس حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے۔
(2) .... یہ چار الفاظ بطور مثال ہیں، باقی اعمال، جیسا کہ نماز، روزہ، حج وغیرہ کی اصل روح سے بھی اکثر لوگ ناآشنا ہیں، قرآن مجید میں ہے:
﴿ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴾(الحجرات : 14)
’’اعرابی لوگوں نے کہا ہم ایمان لے آئے، کہہ دے تم ایمان نہیں لائے اور لیکن یہ کہو ہم مطیع ہو گئے اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو گے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں عام طور پر ایمان اور اسلام ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں، جس میں دل کا یقین اور ظاہری فرماں برداری دونوں شامل ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد القیس کو ایمان کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ ایمان کلمۂ شہادت، نماز، روزے، زکوۃ، حج اور غنیمت میں سے خمس ادا کرنے کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نے ﴿ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ﴾ کہہ کر اپنی جناب میں معتبر دین اسلام کو قرار دیا اور ظاہر ہے وہاں وہی دین معتبر ہے جو دل کے یقین سے ہو، صرف ظاہری اعمال تو وہاں کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات اسلام سے مراد ظاہری احکام کی پابندی اور ایمان سے مراد قلبی یقین ہوتا ہے، جیساکہ حدیث جبریل میں ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ ایمان سے مراد دلی یقین اور اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں، بلکہ بعض اوقات اسلام سے مراد دل سے مان لینا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿ فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ﴾ (الأنعام : 125)
’’تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔‘‘
جس طرح بعض اوقات ایمان سے مراد صرف زبانی کلمہ پڑھنا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ﴾ (النساء : 136)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! (یعنی جنہوں نے ایمان کا اقرار کیا ہے)ایمان لے آؤ۔ (یعنی دل سے مان لو)‘‘
یہاں فرمایا، ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں،یعنی ہم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں اور اس کے ظاہری احکام پر عمل شروع کر دیا ہے۔‘‘
تخریج :
مسند احمد : 6؍21، 22، سنن ابن ماجة: 3934، جامع ترمذي: 7؍379۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1).... مومن، مسلم، مجاہد اور مہاجر شرعی اصطلاحات ہیں۔ ان کے متعلق سطحی تعریف اور معلومات سے ہٹ کر، ان کی حقیقی روح سے متعارف کروایا جا رہا ہے کہ ان کا اصل مفہوم وہ نہیں جو عام لوگ سمجھتے ہیں اور ان میں مشہور ہے، بلکہ حقیقی مطلب وہ ہے جو اس حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے۔
(2) .... یہ چار الفاظ بطور مثال ہیں، باقی اعمال، جیسا کہ نماز، روزہ، حج وغیرہ کی اصل روح سے بھی اکثر لوگ ناآشنا ہیں، قرآن مجید میں ہے:
﴿ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ﴾(الحجرات : 14)
’’اعرابی لوگوں نے کہا ہم ایمان لے آئے، کہہ دے تم ایمان نہیں لائے اور لیکن یہ کہو ہم مطیع ہو گئے اور ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو گے تو وہ تمہیں تمہارے اعمال میں کچھ کمی نہیں کرے گا، بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں عام طور پر ایمان اور اسلام ایک ہی معنی میں استعمال ہوئے ہیں، جس میں دل کا یقین اور ظاہری فرماں برداری دونوں شامل ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد القیس کو ایمان کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ ایمان کلمۂ شہادت، نماز، روزے، زکوۃ، حج اور غنیمت میں سے خمس ادا کرنے کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نے ﴿ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ ﴾ کہہ کر اپنی جناب میں معتبر دین اسلام کو قرار دیا اور ظاہر ہے وہاں وہی دین معتبر ہے جو دل کے یقین سے ہو، صرف ظاہری اعمال تو وہاں کچھ حیثیت نہیں رکھتے۔ بعض اوقات اسلام سے مراد ظاہری احکام کی پابندی اور ایمان سے مراد قلبی یقین ہوتا ہے، جیساکہ حدیث جبریل میں ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ ایمان سے مراد دلی یقین اور اسلام سے مراد ظاہری اعمال ہوتے ہیں، بلکہ بعض اوقات اسلام سے مراد دل سے مان لینا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿ فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ﴾ (الأنعام : 125)
’’تو وہ شخص جسے اللہ چاہتا ہے کہ اسے ہدایت دے، اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے۔‘‘
جس طرح بعض اوقات ایمان سے مراد صرف زبانی کلمہ پڑھنا ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا:
﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ﴾ (النساء : 136)
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! (یعنی جنہوں نے ایمان کا اقرار کیا ہے)ایمان لے آؤ۔ (یعنی دل سے مان لو)‘‘
یہاں فرمایا، ان سے کہو کہ تم ایمان نہیں لائے، بلکہ یوں کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں،یعنی ہم کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں اور اس کے ظاہری احکام پر عمل شروع کر دیا ہے۔‘‘