مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 27

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((رَأَيْتُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي رِجَالًا تُقْرَضُ شِفَاهُهُمْ بِمَقَارِيضَ مِنْ نَارٍ، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ يَا جِبْرِيلُ؟ فَقَالَ: خُطَبَاءُ أُمَّتِكَ الَّذِينَ يَأْمُرونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ، وَيَنْسَوْنَ أَنْفُسَهُمْ، وَهُمْ يَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا يَعْقِلُونَ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 27

کتاب باب سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس رات مجھے سیر کرائی گئی، میں نے دیکھا کہ کچھ مرد ہیں، ان کے ہونٹ قینچیوں سے کاٹ جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: جبریل علیہ السلام! یہ کون ہیں ؟ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے وہ خطیب ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور اپنی جانوں کو بھول جاتے اور وہ کتاب کی تلاوت کرتے کیا پس وہ عقل نہیں کرتے۔‘‘
تشریح : (1).... اس حدیث میں ’’اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت‘‘ کے مصداق بد عمل واعظین کی شناعت بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اسے یہودیوں کا فعل بیان کیا گیا ہے: ﴿ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾(البقرة : 44) ’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھول جاتے ہو اور تم کتاب پڑھتے ہو، کیا پس تم عقل نہیں کرتے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ () كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾(الصف : 2،3) ’’اے لوگو جوایمان لائے ہو! کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جوتم نہیں کرتے۔‘‘ اللہ کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے: ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ﴾ (ھود : 88) ’’اور میں نہیں چاہتا کہ تمہاری بجائے میں (خود(اس کا ارتکاب کروں جس سے تمہیں منع کرتا ہوں۔‘‘ (2) .... خطباء کے لیے زیادہ وعید اس لیے ہے کیوں کہ لوگ ان کی طرف دیکھتے ور ان کے کردار سے تاثر لیتے ہیں۔ (3) .... واضح رہے کہ جوکہے اس پر عمل کرنا ضروری ہے،شرط نہیں ہے۔ واللّٰه اعلم الصواب
تخریج : مسند احمد : 3؍120، 231، 239، صحیح ابن حبان : 1؍145، الموارد، الهیثم، (5)،الزهد، ابن مبارك : 282، حلیة الأولیاء، ابو نعیم : 8؍44، 172، تاریخ بغداد : 12؍47، سلسة الصحیحة: 291۔ (1).... اس حدیث میں ’’اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت‘‘ کے مصداق بد عمل واعظین کی شناعت بیان کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اسے یہودیوں کا فعل بیان کیا گیا ہے: ﴿ أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ﴾(البقرة : 44) ’’کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنی جانوں کو بھول جاتے ہو اور تم کتاب پڑھتے ہو، کیا پس تم عقل نہیں کرتے۔‘‘ نیز فرمایا: ﴿ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ () كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾(الصف : 2،3) ’’اے لوگو جوایمان لائے ہو! کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں۔ اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جوتم نہیں کرتے۔‘‘ اللہ کے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کے متعلق ارشاد ہے: ﴿وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ﴾ (ھود : 88) ’’اور میں نہیں چاہتا کہ تمہاری بجائے میں (خود(اس کا ارتکاب کروں جس سے تمہیں منع کرتا ہوں۔‘‘ (2) .... خطباء کے لیے زیادہ وعید اس لیے ہے کیوں کہ لوگ ان کی طرف دیکھتے ور ان کے کردار سے تاثر لیتے ہیں۔ (3) .... واضح رہے کہ جوکہے اس پر عمل کرنا ضروری ہے،شرط نہیں ہے۔ واللّٰه اعلم الصواب