كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: [ص:15] سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، حَتَّى إِذَا لَمْ يَتْرُكْ عَالِمًا، اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا))
کتاب
باب
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ علم کو لوگوں سے چھین کر قبض نہیں کرتا، لیکن وہ علماء کوقبض کر کے علم قبض کرتا ہے، یہاں تک کہ جب وہ کسی عالم کو نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے سوال پوچھیں گے اور وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے، وہ گمراہ ہوں گے اورگمراہ کریں گے۔
تشریح :
(1).... اس حدیث میں علم اور اہل علم کی فضیلت جب کہ جاہل مفتیوں کی مذمت کا بیان ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾(الزمر : 9)
’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دیجئے: کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں ؟ نصیحت تو صرف اہل دانش ہی حاصل کرتے ہیں۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾(طٰهٰ : 114)
’’اور کہہ دیجئے! اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
اہل علم کا کہنا ہے کہ کہیں بھی کسی چیز کا اضافہ مانگنے کی دعا نہیں آئی، یہ صرف علم ہی ہے جس کے اضافے کا سوال کرنے کی تلقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کی گئی ہے۔
(2) .... سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد کے شہدا میں سے دو (دو(آدمیوں کو ایک (ایک(قبر میں اکٹھا دفن فرماتے، اس وقت پوچھتے: ’’ان میں سے کسے قرآن زیادہ یاد تھا؟‘‘ جب آپ کو ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کر کے بتایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں پہلے اسے اتارتے (یا اسے قبلے کی جانب آگے رکھتے)۔( صحیح بخاري: 1343۔)
اس میں حافظ قرآن کی ترجیح اور فضیلت کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، اسی طرح اہل علم، اہل زہدو تقویٰ اور دیگر اہل شرف و فضل کو مقدم رکھا جاے گا۔
(3) .... دنیاوی عزت و جاہ اسی دنیا کی زندگی میں ہوتی ہے اور قرآن اور دین کی وجہ سے ملنے والی عزت فوت ہونے کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔
(4) .... فتاویٰ دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب و سنت کے دلائل سے آشنا ہو، اپنی رائے کی بنیاد پر فتویٰ نہ دے، مذکورہ بالا روایت کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں :
((فَیُفْتُونَ بِرَأْیِهِمْ فَیُضِلُّونَ وَیَضِلُّونَ)) (صحیح بخاري: 9؍123۔)
’’پس وہ اپنی رائے کے ساتھ فتویٰ دیں گے، سو گمراہ ہوں گے اور گمراہ کریں گے۔‘‘
دوسری حدیث میں رائے اور قیاس کی مذمت یوں آئی ہے: ’’میری امت ستر سے کچھ اوپر فتنوں میں بٹ جائے گی، ان میں سب سے بڑا فتنہ ان لوگوں کا ہوگا جو اپنی رائے سے دین میں قیاس کریں گے، جو اللہ نے حلال کیا اسے حرام کریں گے اور جو اللہ نے حرام کیا، اسے حلال کریں گے۔‘‘ (جامع بیان العلم وفضله، ابن عبد البر : 2؍163، الفقیه والمتفقه، خطیب بغدادي : 1؍180، مجمع الزوائد، هیثمي: 1؍9183، کشف الأستار : ص 172۔)
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ وہ قیاس ہے جو اصل کے بغیر ہو، نیز دین کے بارے میں گمان اور تخمینے سے گفتگو کرنا مراد ہے۔ کیا آپ حدیث کے الفاظ نہیں دیکھ رہے ’’وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کریں گے۔‘‘ اور معلوم ہے کہ حلال وہی ہے جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں ؟ اور حرام وہ ہے جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ہے، جو اس سے جاہل ہے اور سوال کیے جانے پر اس نے بغیر علم کے کہہ دیا اور اپنی رائے سے قیاس کی تو یہی وہ قیاس آرائیاں ہیں کہ جن سے وہ خود بھی گمراہ ہوا اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا۔ لیکن جس نے فروع کو ان کے اصول کے طرف لوٹایا اس نے رائے سے بات نہیں کی۔( أعلام الموقعین، ص : 51۔)
تخریج :
صحیح بخاري: 1؍140، صحیح مسلم : 16؍222، مسند طیالسي:، مسند احمد (الفتح الرباني): 1؍39، الزهد، ابن مبارك : 281، طبراني صغیر : 1؍165، مسند قضاعي، (الباب شرح الشهاب(: 197، مشکل الآثار، طحاوي : 1؍127، تاریخ بغداد : 3؍74، 5؍460، 8؍368، 10؍375، 11؍241، حلیة الأولیاء، ابو نعیم : 2؍181، 10؍25۔
(1).... اس حدیث میں علم اور اہل علم کی فضیلت جب کہ جاہل مفتیوں کی مذمت کا بیان ہے۔ قرآن مجید میں ہے:
﴿ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾(الزمر : 9)
’’اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ دیجئے: کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے، برابر ہو سکتے ہیں ؟ نصیحت تو صرف اہل دانش ہی حاصل کرتے ہیں۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿ وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾(طٰهٰ : 114)
’’اور کہہ دیجئے! اے میرے رب میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
اہل علم کا کہنا ہے کہ کہیں بھی کسی چیز کا اضافہ مانگنے کی دعا نہیں آئی، یہ صرف علم ہی ہے جس کے اضافے کا سوال کرنے کی تلقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کی گئی ہے۔
(2) .... سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد کے شہدا میں سے دو (دو(آدمیوں کو ایک (ایک(قبر میں اکٹھا دفن فرماتے، اس وقت پوچھتے: ’’ان میں سے کسے قرآن زیادہ یاد تھا؟‘‘ جب آپ کو ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کر کے بتایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر میں پہلے اسے اتارتے (یا اسے قبلے کی جانب آگے رکھتے)۔( صحیح بخاري: 1343۔)
اس میں حافظ قرآن کی ترجیح اور فضیلت کا مسئلہ بیان کیا گیا ہے، اسی طرح اہل علم، اہل زہدو تقویٰ اور دیگر اہل شرف و فضل کو مقدم رکھا جاے گا۔
(3) .... دنیاوی عزت و جاہ اسی دنیا کی زندگی میں ہوتی ہے اور قرآن اور دین کی وجہ سے ملنے والی عزت فوت ہونے کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔
(4) .... فتاویٰ دینے والے کے لیے ضروری ہے کہ کتاب و سنت کے دلائل سے آشنا ہو، اپنی رائے کی بنیاد پر فتویٰ نہ دے، مذکورہ بالا روایت کے بعض طرق میں یہ الفاظ بھی ہیں :
((فَیُفْتُونَ بِرَأْیِهِمْ فَیُضِلُّونَ وَیَضِلُّونَ)) (صحیح بخاري: 9؍123۔)
’’پس وہ اپنی رائے کے ساتھ فتویٰ دیں گے، سو گمراہ ہوں گے اور گمراہ کریں گے۔‘‘
دوسری حدیث میں رائے اور قیاس کی مذمت یوں آئی ہے: ’’میری امت ستر سے کچھ اوپر فتنوں میں بٹ جائے گی، ان میں سب سے بڑا فتنہ ان لوگوں کا ہوگا جو اپنی رائے سے دین میں قیاس کریں گے، جو اللہ نے حلال کیا اسے حرام کریں گے اور جو اللہ نے حرام کیا، اسے حلال کریں گے۔‘‘ (جامع بیان العلم وفضله، ابن عبد البر : 2؍163، الفقیه والمتفقه، خطیب بغدادي : 1؍180، مجمع الزوائد، هیثمي: 1؍9183، کشف الأستار : ص 172۔)
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ وہ قیاس ہے جو اصل کے بغیر ہو، نیز دین کے بارے میں گمان اور تخمینے سے گفتگو کرنا مراد ہے۔ کیا آپ حدیث کے الفاظ نہیں دیکھ رہے ’’وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کریں گے۔‘‘ اور معلوم ہے کہ حلال وہی ہے جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہیں ؟ اور حرام وہ ہے جو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں ہے، جو اس سے جاہل ہے اور سوال کیے جانے پر اس نے بغیر علم کے کہہ دیا اور اپنی رائے سے قیاس کی تو یہی وہ قیاس آرائیاں ہیں کہ جن سے وہ خود بھی گمراہ ہوا اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا۔ لیکن جس نے فروع کو ان کے اصول کے طرف لوٹایا اس نے رائے سے بات نہیں کی۔( أعلام الموقعین، ص : 51۔)