كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَني جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: بَيْنَا نَحنُ نَقْتَرِئُ إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ((الْحَمْدُ لِلَّهِ كِتَابٌ وَاحِدٌ وَفِيكُمُ الْأَخْيَارُ، وَفِيكُمُ الْأَحْمَرُ وَالْأَسْوَدُ، اقْرَءُوا قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَ أَقْوَامٌ يَقْرَءُونَ، يُقِيمُونَ حُرُوفَهُ كَمَا يُقَامُ السَّهْمُ، لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَتَعَجَّلُونَ أَجْرَهُ وَلَا يَتَأَجَّلُونَهُ))
کتاب
باب
سیدنا سہل ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسی دوران ہم (قرآن)پڑھ رہے تھے کہ اچانک ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب تعریف اللہ کی ہے، کتاب ایک ہے اور تمہارے اندر سرخ اور سیاہ ہے۔ (قرآن)پڑھو، اس سے پہلے کہ ایسی قومیں آئیں جو اسے پڑھیں گی، اس کے حروف کو سیدھا کریں گی جس طرح تیر سیدھا کیا جاتا ہے، وہ ان کی ہنسلیوں سے تجاوز نہیں کرے گا، وہ اس کا اجر جلد طلب کریں گے اور اس میں تاخیر نہیں کریں گے۔‘‘
تشریح :
(1) .... اس حدیث میں قرآن مجید کو پڑھنے کی ترغیب ہے، نیز اس پر عمل پیدا نہ ہونے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ صرف قرأت و تجوید کی طرف متوجہ رہنا اور معانی قرآن تک رسائی حاصل نہ کرنا درست نہیں ہے۔
(2) .... علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والأخذ بالتجوید حتم لازم
من لم یجود القرآن اٰثم(المقدمة الجزریة مع الفوائد السلفیة، باب معرفة التجوید، ص : 12۔)
’’یعنی علم تجوید کا حصول لازمی اور حتمی ہے، جو شخص قرآن کو تجوید کے ساتھ نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے۔‘‘
لیکن حاشا و کلا ان کا مقصد یہ نہیں کہ مفاہیم و مطالب قرآن سے نابلد رہا جائے اور عمل بالقرآن سے گریز اختیار کیا جائے۔ وہ قراء جو مخارج و صفات اور عملی قراء ت میں مبالغے سے کام لیتے ہیں، انہیں اس حدیث پر غور کرنا چاہیے اور ظاہری حسن صورت کے بجائے اخلاص، معانی قرآن میں تفکر اور قرآن کے عجائب میں غور و خوض کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
(3) .... ایسے ہی اس حدیث میں جن لوگوں کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان سے مراد خوارج بھی ہوسکتے ہیں جو قرآن مجید کی طویل قرأت کرتے، لمبی نمازیں پڑھتے، مگر اوپر اوپر سے۔ وہ قرآن کو سمجھ نہ سکے بلکہ قرآن پڑھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے۔ان کا بڑا عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ظاہر ہوچکا تھا۔ (صحیح بخاري: 6933۔)
خوارج کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے عراق کی طرف اشارہ کیا (کیوں کہ ان کا ظہور نجد عراق سے ہوا تھا اور واقعۃً وہ حروراء میں ٹھہرے جو عراق میں واقع ہے)‘‘ اس سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھیں گے، وہ ان کی ہنسلیوں سے تجاوز نہیں کرے گا، وہ اسلام سے نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار میں سے نکل جاتا ہے(صحیح بخاري: 6934۔)
(4) .... سرخ اور سیاہ سے مراد عربی اور عجمی لوگ ہیں۔ ابوداؤد میں ’’أبیض‘‘ یعنی سفید کا لفظ بھی ہے اور اسی کی حدیث نمبر (829)میں اعرابی (بدوی)اور عجمی کے الفاظ ہیں۔ عربی زبان میں شناخت کے لیے ایسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شاہ روم ہرقل کے متعلق ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: ((إِنَّهُ یَخَافُهُ مَلِكُ بَنِیَ الْأَصْغَرِ)) ’’بے شک اس (نبی(صلی اللہ علیہ وسلم )سے تو بنی اصغر (رومیوں)کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔‘‘
جس طرح عربی اور عجمی وغیرہ کے لیے احمر، اسود اور ابیض جیسے الفاظ آئے۔ اسی طرح اہل روم کے لیے بنی اصغر کا استعمال ہوتا ہے۔
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 280، صحیح ابن حبان : 2؍96، سنن ابي داؤد، کتاب الصلاة، باب ما یجزءٔ الأمی والأعجمي من القراءة، رقم : 830۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1) .... اس حدیث میں قرآن مجید کو پڑھنے کی ترغیب ہے، نیز اس پر عمل پیدا نہ ہونے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ صرف قرأت و تجوید کی طرف متوجہ رہنا اور معانی قرآن تک رسائی حاصل نہ کرنا درست نہیں ہے۔
(2) .... علامہ جزری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والأخذ بالتجوید حتم لازم
من لم یجود القرآن اٰثم(المقدمة الجزریة مع الفوائد السلفیة، باب معرفة التجوید، ص : 12۔)
’’یعنی علم تجوید کا حصول لازمی اور حتمی ہے، جو شخص قرآن کو تجوید کے ساتھ نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے۔‘‘
لیکن حاشا و کلا ان کا مقصد یہ نہیں کہ مفاہیم و مطالب قرآن سے نابلد رہا جائے اور عمل بالقرآن سے گریز اختیار کیا جائے۔ وہ قراء جو مخارج و صفات اور عملی قراء ت میں مبالغے سے کام لیتے ہیں، انہیں اس حدیث پر غور کرنا چاہیے اور ظاہری حسن صورت کے بجائے اخلاص، معانی قرآن میں تفکر اور قرآن کے عجائب میں غور و خوض کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔
(3) .... ایسے ہی اس حدیث میں جن لوگوں کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان سے مراد خوارج بھی ہوسکتے ہیں جو قرآن مجید کی طویل قرأت کرتے، لمبی نمازیں پڑھتے، مگر اوپر اوپر سے۔ وہ قرآن کو سمجھ نہ سکے بلکہ قرآن پڑھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تکفیر کرتے۔ان کا بڑا عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ظاہر ہوچکا تھا۔ (صحیح بخاري: 6933۔)
خوارج کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے عراق کی طرف اشارہ کیا (کیوں کہ ان کا ظہور نجد عراق سے ہوا تھا اور واقعۃً وہ حروراء میں ٹھہرے جو عراق میں واقع ہے)‘‘ اس سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھیں گے، وہ ان کی ہنسلیوں سے تجاوز نہیں کرے گا، وہ اسلام سے نکل جائیں گے، جس طرح تیر شکار میں سے نکل جاتا ہے(صحیح بخاري: 6934۔)
(4) .... سرخ اور سیاہ سے مراد عربی اور عجمی لوگ ہیں۔ ابوداؤد میں ’’أبیض‘‘ یعنی سفید کا لفظ بھی ہے اور اسی کی حدیث نمبر (829)میں اعرابی (بدوی)اور عجمی کے الفاظ ہیں۔ عربی زبان میں شناخت کے لیے ایسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شاہ روم ہرقل کے متعلق ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا: ((إِنَّهُ یَخَافُهُ مَلِكُ بَنِیَ الْأَصْغَرِ)) ’’بے شک اس (نبی(صلی اللہ علیہ وسلم )سے تو بنی اصغر (رومیوں)کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے۔‘‘
جس طرح عربی اور عجمی وغیرہ کے لیے احمر، اسود اور ابیض جیسے الفاظ آئے۔ اسی طرح اہل روم کے لیے بنی اصغر کا استعمال ہوتا ہے۔