كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، ثَنَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، نَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ جُنْدَبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ سُفْيَانَ بْنَ عَوْفٍ الْقَارِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ: ((طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ، طُوبَى لِلْغُرَبَاءِ)) . فَقِيلَ: وَمَنِ الْغُرَبَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ((نَاسٌ صَالِحُونَ قَلِيلٌ فِي نَاسِ سَوْءٍ كَثِيرٍ، مَنْ يَعْصِيهِمْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يُطِيعُهُمْ))، وَكُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا آخَرَ حِينَ طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: ((سَيَأْتِي نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ نُورُهُمْ كَضَوْءِ الشَّمْسِ)) . قُلْنَا: وَمَنْ أُولَئِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ((فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ يُتَّقَى بِهِمُ الْمَكَارِهُ، يَمُوتُ أَحَدُهُمْ وَحَاجَتُهُ فِي صَدْرِهِ يُحْشَرُونَ مِنْ أَقْطَارِ الْأَرْضِ))
کتاب
باب
سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ارشاد فرمایا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے: ’’خوش خبری ہے اجنبیوں کے لیے خوش خبری ہے اجنبیوں کے لیے!‘‘ کہا گیا کہ وہ اجنبی کون ہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تھوڑے نیک لوگ جو زیادہ برے لوگوں میں ہوں گے،ان میں نافرمان، اطاعت شعاروں سے زیادہ ہوں گے۔‘‘ اور وہ ایک دن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے، جب سورج طلوع ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عنقریب قیامت والے دن میری امت کے کچھ لوگ آئیں گے، ان کانور سورج کی روشنی جیسا ہوگا۔‘‘ ہم نے کہاکہ وہ لوگ کون ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مہاجر فقراء، جن کے ذریعے ناپسندیدگیوں سے بچا جاتا ہے، ان میں سے کوئی ایک اس عالم میں فوت ہو جاتا ہے کہ اس کی حاجت اس کے دل میں ہوتی ہے، وہ زمین کے اطراف و اکناف سے اکٹھے کیے جائیں گے۔‘‘
تشریح :
(1) .... ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں : ’’اسلام شروع ہوا تو اجنبی تھا اور عنقریب لوٹ جائے گا جیسا کہ اجنبی شرو ع ہواتھا، پس اجنبیوں کے لیے خوش خبری ہے۔‘‘( صحیح مسلم : 145۔)
نیزفرمایا: ’’اسلام شروع ہوا تو اجنبی تھا اور عنقریب لوٹ جائے گا جیسا کہ اجنبی شروع ہوا تھا اور وہ دو مسجدوں کے درمیان سمٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم : 146۔)
دو مسجدوں سے مراد بیت اللہ اور مسجد نبوی ہیں، جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے: ’’بے شک ایمان یقینا مدینے کی طرف سمٹ آئے گا جس طرح کہ سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم : 147۔)
(2) .... امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ مدینے میں اسلام شروع ہوا تو اجنبی تھا اور عنقریب اس کی طرف لوٹ جائے گا، قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ظاہر الفاظ عموم پر دلالت کر رہے ہیں، اسلام تنہا اور تھوڑے لوگوں سے شروع ہوا، پھر پھیلا اور غالب آگیا پھر نقص اور خلل واقع ہو گیا اور پھر یہ تنہا اور قلیل لوگوں میں رہ جائے گا۔
(3) .... امام ہروی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ غربا سے مراد وہ مہاجرین ہیں جو اپنے وطنوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کر کے آگئے۔ (شرح صحیح مسلم : 1؍84۔)
(4) .... ’’آخر میں ایمان مدینے کی طرف آجائے گا۔‘‘ قاضی عیاض کے نزدیک اس کا معنی ہے کہ اول آخر ایمان اسی صفت کے ساتھ ہوگا، کیوں کہ شروع اسلام میں ہر وہ شخص جس کا ایمان خالص اور اسلام صحیح ہوتا وہ مدینے کی طرف آتا، ایسا مہاجریا تومدینے کو اپنا وطن بنا لیتا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ملاقات اور تعلیم کے لیے آتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں لوگ اسی طرح آتے اور ان کی سیرت عدل اور جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم کی اقتداء کے لیے مدینے کا رخ کرتے، پھران کے بعد ان علماء کا رخ کرتے جو اس وقت ہدایت کے ائمہ اور وقت کے چراغ تھے، تاکہ ان سنتوں کو وہاں جا کر حاصل کر سکیں جو ان سے پھیل چکی تھیں، ہر پکے ایمان اور شرح صدر والا شخص مدینے کا رخ کرتا، پھر اس کے بعد ہر وقت میں ہمارے اس زمانے تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت وغیرہ کے لیے لوگ وہاں جاتے رہے ہیں اور وہاں صرف صاحب ایمان ہی جاتا ہے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍84۔)
(5) .... ’’طوبیٰ‘‘ کا مطلب: قرآن مجید میں ’’طوبی لهم‘‘ کے معنی میں مفسرین کا اختلاف ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس کا معنی فرحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ عکرمہ نے کہا کہ ان کے لیے جو ہوگا اچھا ہوگا، ضحاک نے کہا کہ ان کے لیے رشک ہوگا۔ قتادہ نے کہا کہ ان کے لیے اچھائی ہوگی، قتادہ سے دوسرا معنی یہ مروی ہے کہ وہ خیر کو پہنچیں گے۔ ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا کہ ان کے لیے خیر اور کرامت ہوگی۔ ابن عجلان رحمہ اللہ نے کہا کہ ان کے لیے ہمیشہ کی خیر ہوگی۔ ایک قول ہے کہ جنت ہوگی۔ دوسر ا قول ہے کہ جنت کا درخت ہوگا۔ حدیث میں ان سب اقوال کا احتمال ہے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍84۔)
(6).... علامہ عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، حافظ ابو الفرج عبد الرحمن بن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے ’’کشف الکربة فی وصف حال أهل الغربة‘‘ یہ مصر میں طبع ہوکر شائع ہو چکا ہے۔( تحفة الأحوذي: 3؍363۔)ناراض نہ ہوں
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 267، جامع ترمذي: 76؍380۔ شیخ شعیب نے اسے ’’حسن لغیرہ‘‘ قرار دیا ہے۔
(1) .... ایک دوسری حدیث میں یہ الفاظ ہیں : ’’اسلام شروع ہوا تو اجنبی تھا اور عنقریب لوٹ جائے گا جیسا کہ اجنبی شرو ع ہواتھا، پس اجنبیوں کے لیے خوش خبری ہے۔‘‘( صحیح مسلم : 145۔)
نیزفرمایا: ’’اسلام شروع ہوا تو اجنبی تھا اور عنقریب لوٹ جائے گا جیسا کہ اجنبی شروع ہوا تھا اور وہ دو مسجدوں کے درمیان سمٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم : 146۔)
دو مسجدوں سے مراد بیت اللہ اور مسجد نبوی ہیں، جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے: ’’بے شک ایمان یقینا مدینے کی طرف سمٹ آئے گا جس طرح کہ سانپ اپنے بل کی طرف سمٹ آتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم : 147۔)
(2) .... امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ مدینے میں اسلام شروع ہوا تو اجنبی تھا اور عنقریب اس کی طرف لوٹ جائے گا، قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ظاہر الفاظ عموم پر دلالت کر رہے ہیں، اسلام تنہا اور تھوڑے لوگوں سے شروع ہوا، پھر پھیلا اور غالب آگیا پھر نقص اور خلل واقع ہو گیا اور پھر یہ تنہا اور قلیل لوگوں میں رہ جائے گا۔
(3) .... امام ہروی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ غربا سے مراد وہ مہاجرین ہیں جو اپنے وطنوں سے اللہ تعالیٰ کی طرف ہجرت کر کے آگئے۔ (شرح صحیح مسلم : 1؍84۔)
(4) .... ’’آخر میں ایمان مدینے کی طرف آجائے گا۔‘‘ قاضی عیاض کے نزدیک اس کا معنی ہے کہ اول آخر ایمان اسی صفت کے ساتھ ہوگا، کیوں کہ شروع اسلام میں ہر وہ شخص جس کا ایمان خالص اور اسلام صحیح ہوتا وہ مدینے کی طرف آتا، ایسا مہاجریا تومدینے کو اپنا وطن بنا لیتا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ملاقات اور تعلیم کے لیے آتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں لوگ اسی طرح آتے اور ان کی سیرت عدل اور جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم کی اقتداء کے لیے مدینے کا رخ کرتے، پھران کے بعد ان علماء کا رخ کرتے جو اس وقت ہدایت کے ائمہ اور وقت کے چراغ تھے، تاکہ ان سنتوں کو وہاں جا کر حاصل کر سکیں جو ان سے پھیل چکی تھیں، ہر پکے ایمان اور شرح صدر والا شخص مدینے کا رخ کرتا، پھر اس کے بعد ہر وقت میں ہمارے اس زمانے تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زیارت وغیرہ کے لیے لوگ وہاں جاتے رہے ہیں اور وہاں صرف صاحب ایمان ہی جاتا ہے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍84۔)
(5) .... ’’طوبیٰ‘‘ کا مطلب: قرآن مجید میں ’’طوبی لهم‘‘ کے معنی میں مفسرین کا اختلاف ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اس کا معنی فرحت اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ عکرمہ نے کہا کہ ان کے لیے جو ہوگا اچھا ہوگا، ضحاک نے کہا کہ ان کے لیے رشک ہوگا۔ قتادہ نے کہا کہ ان کے لیے اچھائی ہوگی، قتادہ سے دوسرا معنی یہ مروی ہے کہ وہ خیر کو پہنچیں گے۔ ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا کہ ان کے لیے خیر اور کرامت ہوگی۔ ابن عجلان رحمہ اللہ نے کہا کہ ان کے لیے ہمیشہ کی خیر ہوگی۔ ایک قول ہے کہ جنت ہوگی۔ دوسر ا قول ہے کہ جنت کا درخت ہوگا۔ حدیث میں ان سب اقوال کا احتمال ہے۔( شرح صحیح مسلم : 1؍84۔)
(6).... علامہ عبد الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں، حافظ ابو الفرج عبد الرحمن بن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے ’’کشف الکربة فی وصف حال أهل الغربة‘‘ یہ مصر میں طبع ہوکر شائع ہو چکا ہے۔( تحفة الأحوذي: 3؍363۔)ناراض نہ ہوں