مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 226

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ أَصَابَ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ وَاللَّهِ مَا أَصَبْتُ مَالًا قَطُّ هُوَ أَنْفَسُ عِنْدِي مِنْهُ، فَمَا تَأْمُرُنِي؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنْ شِئْتَ تَصَدَّقْتَ بِهَا وَحَبَسْتَ أَصْلَهَا))، فَجَعَلَهَا عُمَرُ صَدَقَةً لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُورَثُ وَلَا يُوهَبُ، وَتَصَدَّقَ بِهَا عَلَى الْفُقَرَاءِ، وَالْقُرْبَى، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَفِي الرِّقَابِ، وَابْنِ السَّبِيلِ، وَالضَّيْفِ، لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ وَيُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ فَذَكَرْتُهُ لِمُحَمَّدٍ، فَلَمَّا بَلَغَ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ، قَالَ: غَيْرَ مُتأَثِّلٍ فِيهِ مَالًا. فَأَخْبَرَنِي إِنْسَانٌ أَنَّهُ قَرَأَ تِلْكَ الرُّقْعَةَ فَإِذَا فِيهَا: غَيْرَ مُتأَثِّلٍ مَالًا

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 226

کتاب باب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بے شک عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں زمین حاصل ہوئی تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک مجھے خیبر میں زمین حاصل ہوئی ہے، اللہ کی قسم! میں نے کبھی ایسا مال حاصل نہیں کیا جو میرے نزدیک اس سے زیادہ عمدہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کیا مشورہ دیتے ہیں ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو چاہے تو اسے صدقہ کر دے اور اس کی اصل روک لے۔‘‘ چناں چہ عمر رضی اللہ عنہ نے اسے صدقہ کر دیا (اس طرح کہ)اس کی اصل کو نہ بیچا جا سکتا ہے، نہ ہبہ کیا جا سکتا ہے، اور نہ وارث بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اسے فقراء، قرابت داروں، فی سبیل اللہ، گردنوں (کو آزاد کرانے میں)مسافر اور مہمان کے لیے صدقہ کر دیا، جو اس کی دیکھ بھال کرے اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ا چھے طریقے سے اس میں سے کھا لے اور دوست کو کھلا لے۔ اسے اپنا مال بنانے والا نہ ہو، میں نے یہ محمد کو حدیث ذکر کی تو جب یہاں پہنچا، اسے اپنا مال بنانے والا نہ ہو، تو کہا کہ اس میں مال کا سوال کرنے والا نہ ہو، سو مجھے ایک انسان نے خبر دی کہ بے شک اس نے وہ رقعہ پڑھا تھا، جس میں تھا کہ مال کا سوال کرنے والا نہ ہو۔
تشریح : اس حدیث میں وقف کا بیان ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ یہی (1)جمہور اہل علم کا موقف ہے اور اجماع بھی مساجد اور باغات کو وقف کرنے پر دلالت کرتا ہے۔ (2)وقف شدہ چیز کو نہ بیچا جا سکتا ہے، نہ ہبہ کیا جا سکتا ہے، نہ وہ وراثت بن سکتی ہے۔ (3)وقف میں وقف کرنے والے کی شرطوں کی پیروی کی جائے گی۔ (4)وقف کرنے والے کی شرطوں کا صحیح ہونا (5)اس میں وقف کی فضیلت ہے اور یہ کہ وہ ایک صدقہ جاریہ ہے۔ (6)اس میں سے خرچ کرنے کی فضیلت جو انسان مناسب سمجھے۔ (7)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہو رہی ہے۔ (8)اہل فضل و صلاح سے امور میں اور خیر کے کاموں میں مشورہ کرنے کا بیان ہے۔ (9)خیبر عنوۃً فتح ہوا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم اموال غنیمت کے مالک بنے اور اسے باہم تقسیم کیا، ان کی املاک ان کے حصوں کے مطابق برقرار رہیں اور انہوں نے ا ن میں تصرفات کیے۔(10)صلہ رحمی کی فضیلت اور رشتہ داروں پر وقف کرنا۔ (وتلك عشرة کاملة) (شرح صحیح مسلم : 2؍42۔)
تخریج : صحیح بخاري: 5؍308، 309، صحیح مسلم : 11؍86، 87، جامع ترمذي، الأحکام : 36، باب ما جاء فی الوقف، سنن ابو داؤد: 8؍81، سنن ابن ماجة: 2396، 2397، مسند أحمد : 2؍13، 55، 125، طبقات ابن سعد : 3؍357، حلیة الأولیاء،ابو نعیم : 8؍263، نصب الرایة، زیلعي : 3؍476۔ اس حدیث میں وقف کا بیان ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ یہی (1)جمہور اہل علم کا موقف ہے اور اجماع بھی مساجد اور باغات کو وقف کرنے پر دلالت کرتا ہے۔ (2)وقف شدہ چیز کو نہ بیچا جا سکتا ہے، نہ ہبہ کیا جا سکتا ہے، نہ وہ وراثت بن سکتی ہے۔ (3)وقف میں وقف کرنے والے کی شرطوں کی پیروی کی جائے گی۔ (4)وقف کرنے والے کی شرطوں کا صحیح ہونا (5)اس میں وقف کی فضیلت ہے اور یہ کہ وہ ایک صدقہ جاریہ ہے۔ (6)اس میں سے خرچ کرنے کی فضیلت جو انسان مناسب سمجھے۔ (7)سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت ظاہر ہو رہی ہے۔ (8)اہل فضل و صلاح سے امور میں اور خیر کے کاموں میں مشورہ کرنے کا بیان ہے۔ (9)خیبر عنوۃً فتح ہوا تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم اموال غنیمت کے مالک بنے اور اسے باہم تقسیم کیا، ان کی املاک ان کے حصوں کے مطابق برقرار رہیں اور انہوں نے ا ن میں تصرفات کیے۔(10)صلہ رحمی کی فضیلت اور رشتہ داروں پر وقف کرنا۔ (وتلك عشرة کاملة) (شرح صحیح مسلم : 2؍42۔)