كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، ثَنَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زَحْرٍ حَدَّثَهُ عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ دَعَا بِقَمِيصٍ لَهُ جَدِيدٍ فَلَبِسَهُ، فَلَا أَحْسَبُهُ بَلَغَ تَرَاقِيَهُ، حَتَّى قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَسَانِي مَا أُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي، وَأَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي، ثُمَّ قَالَ: أَتَدْرُونَ لِمَ قُلْتُ هَذَا؟ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا بِثِيَابٍ لَهُ جُدُدٍ فَلَبِسَهَا فَلَا أَحْسَبُهَا بَلَغَتْ تَرَاقِيَةُ حَتَّى قَالَ مِثْلَ مَا قُلْتُ، ثُمَّ قَالَ: ((وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَلْبَسُ ثَوْبًا جَدِيدًا، ثُمَّ يَقُولُ مِثْلَ مَا قُلْتُ، ثُمَّ يَعْمِدُ إِلَى سَمَلٍ مِنْ أَخْلَاقِهِ الَّتِي وَضَعَ، فَيَكْسُوهُ إِنْسَانًا مِسْكِينًا فَقِيرًا مُسْلِمًا لَا يَكْسُوهُ إِلَّا لِلَّهِ، إِلَّا كَانَ فِي حِرْزِ اللَّهِ، وَفِي ضَمَانِ اللَّهِ، وَفِي جِوَارِ اللَّهِ، مَا دَامَ عَلَيْهِ مِنْهَا سِلْكٌ وَاحِدٌ حَيًّا وَمَيِّتًا، حَيًّا وَمَيِّتًا، حَيًّا وَمَيِّتًا))
کتاب
باب
سیدنا ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنی نئی قمیص منگوائی اور زیب تن کی، میرا نہیں خیال کہ وہ ان کی ہنسلیوں تک پہنچی، یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سب تعریف اللہ کے لیے جس نے مجھے وہ (لباس(پہنایا جس کے ساتھ میں اپنی شرم گاہ ڈھانپتا ہوں اور جس کے ساتھ میں اپنی زندگی میں خوب صورتی اختیار کرتا ہوں، پھر کہا: کیا تم جانتے ہو کہ میں نے یہ کیوں کہا؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نئے کپڑے منگوائے، انہیں زیب تن کیا، کہاکہ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسلیوں تک پہنچ گئے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی مثل جو میں نے کہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو مسلمان بندہ بھی نیا لباس پہنتا ہے پھر اسی کی مثل کہتا ہے جو میں نے کہا، پھر وہ اپنے ان پرانے اور بوسیدہ کپڑوں کی طرف قصد کرتا ہے جنہیں اتار دیا گیا ہے اور کسی مسلمان، فقیر، مسکین انسان کو پہنا دیتا ہے، وہ اسے صرف اللہ کے لیے پہناتا ہے تو لازماً وہ اللہ کی پناہ، ضمانت اور پڑوس میں ہوتا ہے، جب تک کہ اس کے اوپر اس کا ایک دھاگا بھی ہوتا ہے، خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ، زندہ ہو یا مردہ، زندہ ہو یا مردہ۔‘‘
تشریح :
(1) .... اس حدیث میں نیا لباس پہننے کی دعا سکھائی گئی ہے، تاکہ جس رب کریم نے یہ نعمت ارزاں فرمائی ہے اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔
(2) .... ساتھ یہ ترغیب دی گئی کہ پرانا لباس کسی غریب، مسکین مسلمان کو دے دیا جائے جس کا اجر عظیم مذکورہ بالا حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے۔
(3) .... سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیسا احترام فرمایا کہ نیا کپڑا پہنتے وقت وہ دعا بھی تعلیماً ارشاد فرما دی، صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے ہی ہر موقع پر مسنون عمل کا لحاظ رکھا کرتے تھے۔
(4) .... کسی ذہن میں یہ اشکال پید ا ہوسکتا ہے کہ اللہ کے راستے میں تو عمدہ اور اچھی چیز دینی چاہیے، جب کہ یہاں پرانا اور بوسیدہ لباس دینے کی ترغیب دی گئی ہے؟
اس کاجواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ عمدہ اور نفیس چیز دینا یا اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دینا اعلیٰ ترین ایمان اور تقویٰ ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ معمولی اور ارزاں چیز صدقہ نہیں کی جا سکتی، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ((اِتَّقُوْا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ))( صحیح بخاري: 1417۔) ’’آگ سے بچو، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا: ((وَلَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا۔))( صحیح مسلم : 2626۔) ’’ذرا سی نیکی کو بھی حقیر مت جانو۔‘‘
دوسرا یہ کہ لباس کا معاملہ دوسری چیزوں سے جدا ہے، اس لیے کہ لباس معمولی، پرانا اور بوسیدہ ہی کیوں نہ ہو، انسان اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا، بخلاف دوسری اشیاء کے، کیوں کہ انسان کے بہت سے کام معمولی لباس سے ہی طے پاتے ہیں، جیسا کہ سونے کے وقت، مشقت کا کام کرتے وقت اور دیگر ایسے اعمال جن میں لباس کے گدلا ہونے کا احتمال ہو، لہٰذا معمولی لباس صدقہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے بے فائدہ چیز کو صدقہ کیا ہے۔ نیز ضروری نہیں کہ جو چیز ایک آدمی کے لیے معمولی ہو، دوسرے کے لیے بھی ارزاں ہوں۔( نیز اصول ہے کہ ’’لکل ساقطة لا قطة‘‘ ’’ہر گری پڑی چیز کو کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے۔‘‘)
(5) .... ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی چاہت پر عمدہ اور نفیس لباس بھی قربان کر دیتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک عورت نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چادر ہدیہ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت بھی تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہہ بند کے طور پر زیب تن فرمائی۔ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ کتنی خوب صورت چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ لوگوں نے سن کر کہا کہ تو نے اچھا نہیں کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ضرورت مند تھے،تو نے پھر بھی سوال کر دیا اور تجھے معلوم بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب نہیں دیتے۔ اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے بطور لباس پہننے کے لیے نہیں مانگی، میرا ارادہ ہے کہ اسے کفن بنا لوں، سیدنا سہیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر وہ چادر اس کا کفن بنی تھی۔( صحیح بخاري: 1277۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 259، مستدرك حاکم : 4؍193، ضعیف الجامع الصغیر : 5827۔
(1) .... اس حدیث میں نیا لباس پہننے کی دعا سکھائی گئی ہے، تاکہ جس رب کریم نے یہ نعمت ارزاں فرمائی ہے اس کا شکریہ ادا کیا جائے۔
(2) .... ساتھ یہ ترغیب دی گئی کہ پرانا لباس کسی غریب، مسکین مسلمان کو دے دیا جائے جس کا اجر عظیم مذکورہ بالا حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے۔
(3) .... سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیسا احترام فرمایا کہ نیا کپڑا پہنتے وقت وہ دعا بھی تعلیماً ارشاد فرما دی، صحابہ رضی اللہ عنہم ایسے ہی ہر موقع پر مسنون عمل کا لحاظ رکھا کرتے تھے۔
(4) .... کسی ذہن میں یہ اشکال پید ا ہوسکتا ہے کہ اللہ کے راستے میں تو عمدہ اور اچھی چیز دینی چاہیے، جب کہ یہاں پرانا اور بوسیدہ لباس دینے کی ترغیب دی گئی ہے؟
اس کاجواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ عمدہ اور نفیس چیز دینا یا اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دینا اعلیٰ ترین ایمان اور تقویٰ ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ معمولی اور ارزاں چیز صدقہ نہیں کی جا سکتی، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ((اِتَّقُوْا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ))( صحیح بخاري: 1417۔) ’’آگ سے بچو، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے کے ساتھ ہی۔‘‘
نیز ارشاد فرمایا: ((وَلَا تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوْفِ شَیْئًا۔))( صحیح مسلم : 2626۔) ’’ذرا سی نیکی کو بھی حقیر مت جانو۔‘‘
دوسرا یہ کہ لباس کا معاملہ دوسری چیزوں سے جدا ہے، اس لیے کہ لباس معمولی، پرانا اور بوسیدہ ہی کیوں نہ ہو، انسان اس سے مستغنی نہیں ہوسکتا، بخلاف دوسری اشیاء کے، کیوں کہ انسان کے بہت سے کام معمولی لباس سے ہی طے پاتے ہیں، جیسا کہ سونے کے وقت، مشقت کا کام کرتے وقت اور دیگر ایسے اعمال جن میں لباس کے گدلا ہونے کا احتمال ہو، لہٰذا معمولی لباس صدقہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ اس نے بے فائدہ چیز کو صدقہ کیا ہے۔ نیز ضروری نہیں کہ جو چیز ایک آدمی کے لیے معمولی ہو، دوسرے کے لیے بھی ارزاں ہوں۔( نیز اصول ہے کہ ’’لکل ساقطة لا قطة‘‘ ’’ہر گری پڑی چیز کو کوئی نہ کوئی اٹھانے والا ہوتا ہے۔‘‘)
(5) .... ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کسی کی چاہت پر عمدہ اور نفیس لباس بھی قربان کر دیتے تھے۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک عورت نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چادر ہدیہ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرورت بھی تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہہ بند کے طور پر زیب تن فرمائی۔ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ کتنی خوب صورت چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ لوگوں نے سن کر کہا کہ تو نے اچھا نہیں کیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود ضرورت مند تھے،تو نے پھر بھی سوال کر دیا اور تجھے معلوم بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب نہیں دیتے۔ اس نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے بطور لباس پہننے کے لیے نہیں مانگی، میرا ارادہ ہے کہ اسے کفن بنا لوں، سیدنا سہیل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پھر وہ چادر اس کا کفن بنی تھی۔( صحیح بخاري: 1277۔)