مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 217

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ الْمُثَنَّى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((لَا تَرْقُبُوا شَيْئًا، فَمَنْ أَرْقَبَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ، وَلَا تَعْمُرُوا، فَمَنْ عَمَرَ شَيْئًا فَهُوَ لِوَرَثَتِهِ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 217

کتاب باب سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی چیز کو رقبیٰ نہ کرو، جس نے کسی چیز کو رقبیٰ کیا تو وہ اسی کے لیے ہے اور عمرٰی نہ کرو، جس نے کسی چیز میں عمرٰی کیا تو وہ اسی کے لیے ہے۔
تشریح : (1).... عُمرٰی: ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ میں نے یہ گھر تجھے عُمرٰی کیا، یعنی جب تک تیری زندگی ہے تو اس میں رہ سکتا ہے، جب تو فوت ہو گا تو گھر میرا ہو جائے گا۔ رقبٰی: .... ایک آدمی دوسرے سے کہا کہ یہ چیز تیری ہے، جب تک تو زندہ ہے، اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو گیا تو چیز میری طرف لوٹ آئے گی۔ دور جاہلیت میں اس طرح تحائف دینے اور تعاون باہمی کا رواج تھا۔ اسلام نے اس میں ضروری اصلاحات فرمائیں۔ اس کی تین صورتیں بنتی ہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: (1)یہ کہ وہ کہے یہ گھر تیرا اور تیری اولاد کا ہے۔ یہ اس بارے واضح ہے کہ وہ اسے اور بعد میں اس کی اولاد کو وراثت میں مل جائے گا۔ (2)یہ کہ وہ کہے کہ یہ تیرا ہے جب تک تو زندہ ہے، جب تو فوت ہوگا تو یہ میری طرف لوٹ آئے گا۔ یہ وقتی عاریتاً چیز ہے اور صحیح ہے۔ جب وہ فوت ہوگا تو دینے والے کی طرف لوٹ جائے گا۔ جس طرح کہ یہ روایت اور اس کے قبل زہری کی روایت واضح کر رہی ہے اور یہی بات اکثر علماء نے کہی اور شوافع کی ایک جماعت نے اسے ترجیح دی اور ان کی اکثریت کے نزدیک زیادہ صحیح یہ کہ وہ تحفہ دینے والے کی طرف نہیں لوٹے گا اور انہوں نے یہ حجت پکڑی ہے کہ یہ ایک فاسد شرط ہے جو لغو اور رائیگاں ہے۔ (3)وہ یہ کہے کہ میں تجھے عُمرٰی کرتاہوں اور مطلق رہنے دے تو ابن زبیر کی یہ روایت (یعنی جو مسلم نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ انصار مہاجرین کو عُمرٰی کرنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے مال اپنے اوپر رکھ کر روک اور انہیں خراب مت کرو، بات یہ ہے کہ جس نے کوئی چیز عُمرٰی کر دی تو سووہ اسی کے لیے ہے جس کے لیے عُمرٰی کی گئی، وہ زندہ ہو یا مردہ اور اس کے پچھلوں )وارثوں (کے لیے ہے۔)اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کا حکم بھی پہلی والا ہے اور بے شک وہ چیز تحفہ دینے والے کی طرف نہیں لوٹے گی، یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا نیا قول اور جمہور کا موقف ہے۔( تحفة الأحوذي : 2؍284۔) (2) .... عُمرٰی اور رُقبٰی میں صرف لفظی فرق ہے، ویسے دونوں یکساں ہیں، جیسا کہ امام احمد اور اسحاق فرماتے ہیں اور جمہور اہل علم نے بھی یہی فرمایا ہے۔( جامع ترمذي مع تحفة الأحوذي : 2؍284۔)
تخریج : صحیح مسلم : 11؍69۔ 73 رقم : 20؍26، جامع ترمذي: 4؍580، 583، سنن ابي داؤد : 9؍469، التلخیص الجیر : 3؍71، مسند طیالسي: 1؍281، موطا : 4؍48، سنن بیهقي: 6؍172، 183، سنن ابن ماجة: 2380، 2383، مسند أحمد (الفتح الرباني )15؍177، معاني الآثار،طحاوي : 4؍92، 93، 94۔ (1).... عُمرٰی: ایک آدمی دوسرے سے کہے کہ میں نے یہ گھر تجھے عُمرٰی کیا، یعنی جب تک تیری زندگی ہے تو اس میں رہ سکتا ہے، جب تو فوت ہو گا تو گھر میرا ہو جائے گا۔ رقبٰی: .... ایک آدمی دوسرے سے کہا کہ یہ چیز تیری ہے، جب تک تو زندہ ہے، اگر تو مجھ سے پہلے فوت ہو گیا تو چیز میری طرف لوٹ آئے گی۔ دور جاہلیت میں اس طرح تحائف دینے اور تعاون باہمی کا رواج تھا۔ اسلام نے اس میں ضروری اصلاحات فرمائیں۔ اس کی تین صورتیں بنتی ہیں، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: (1)یہ کہ وہ کہے یہ گھر تیرا اور تیری اولاد کا ہے۔ یہ اس بارے واضح ہے کہ وہ اسے اور بعد میں اس کی اولاد کو وراثت میں مل جائے گا۔ (2)یہ کہ وہ کہے کہ یہ تیرا ہے جب تک تو زندہ ہے، جب تو فوت ہوگا تو یہ میری طرف لوٹ آئے گا۔ یہ وقتی عاریتاً چیز ہے اور صحیح ہے۔ جب وہ فوت ہوگا تو دینے والے کی طرف لوٹ جائے گا۔ جس طرح کہ یہ روایت اور اس کے قبل زہری کی روایت واضح کر رہی ہے اور یہی بات اکثر علماء نے کہی اور شوافع کی ایک جماعت نے اسے ترجیح دی اور ان کی اکثریت کے نزدیک زیادہ صحیح یہ کہ وہ تحفہ دینے والے کی طرف نہیں لوٹے گا اور انہوں نے یہ حجت پکڑی ہے کہ یہ ایک فاسد شرط ہے جو لغو اور رائیگاں ہے۔ (3)وہ یہ کہے کہ میں تجھے عُمرٰی کرتاہوں اور مطلق رہنے دے تو ابن زبیر کی یہ روایت (یعنی جو مسلم نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کی کہ انصار مہاجرین کو عُمرٰی کرنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے مال اپنے اوپر رکھ کر روک اور انہیں خراب مت کرو، بات یہ ہے کہ جس نے کوئی چیز عُمرٰی کر دی تو سووہ اسی کے لیے ہے جس کے لیے عُمرٰی کی گئی، وہ زندہ ہو یا مردہ اور اس کے پچھلوں )وارثوں (کے لیے ہے۔)اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اس کا حکم بھی پہلی والا ہے اور بے شک وہ چیز تحفہ دینے والے کی طرف نہیں لوٹے گی، یہ امام شافعی رحمہ اللہ کا نیا قول اور جمہور کا موقف ہے۔( تحفة الأحوذي : 2؍284۔) (2) .... عُمرٰی اور رُقبٰی میں صرف لفظی فرق ہے، ویسے دونوں یکساں ہیں، جیسا کہ امام احمد اور اسحاق فرماتے ہیں اور جمہور اہل علم نے بھی یہی فرمایا ہے۔( جامع ترمذي مع تحفة الأحوذي : 2؍284۔)