مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 212

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، أَنا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: سَأَلَتْ أُمِّي أَبِي بَعْضَ الْمَوْهِبَةِ لِي مِنْ مَالِهِ، فَالْتَوَى بِهَا سَنَةً، ثُمَّ بَدَا لَهُ فَوَهَبَهَا لِي، وَأَنَّهَا قَالَتْ: لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَا وَهَبْتَ لِابْنِي، فَأَخَذَ بِيَدِي وَأَنَا يَومَئذٍ غُلَامٌ، فَأَتَى بِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنَّ أُمَّ هَذَا بِنْتَ رَوَاحَةَ قَاتَلَتْنِي مُنْذُ سَنَةٍ عَلَى بَعْضِ الْمَوْهِبَةِ لِابْنِي هَذَا، وَقَدْ بَدَا لِي فَوَهَبْتُهَا لَهُ، وَقَدْ أَعْجَبَهَا أَنْ تُشْهِدَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: ((يَا بَشِيرُ، أَلَكَ وَلَدٌ سِوَى هَذَا؟))، قَالَ: نَعَمْ، فَأُرَاهُ قَالَ: ((لَا، لَا تُشْهِدْنِي عَلَى هَذَا))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 212

کتاب باب سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے میرے والد سے،اس کے مال میں سے، میرے لیے بعض تحفے کا سوال کیا،ا س نے ایک سال تک اسے ملتوی رکھا، پھر اس کے لیے مجھے تحفہ دینا ظاہر ہوا اور بے شک اس (میری ماں (نے کہا، میں راضی نہیں ہوں گی، یہاں تک کہ تو اس پر جو میرے بیٹے کو تحفہ دو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا لو، تواس نے میرا ہاتھ پکڑا اور میں ان دنوں بچہ تھا اور مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آیا اورکہا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک اس کی ماں، رواحہ کی بیٹی، مجھے ایک سال سے اپنے اس بیٹے کو بعض تحفہ دینے پر اصرار کر رہی تھی اور اب میرے لیے اسے تحفہ دینا ظاہر ہوا ہے اور اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یقینا اسے لگا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بشیر! کیا تیری اس کے علاوہ بھی اولاد ہے؟ کہا کہ ہاں، میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے اس پر گواہ نہ بنا۔
تشریح : (1).... اولاد میں برابری کی بنیاد پر تحائف دئیے جائیں۔ کسی کو دینا اور کسی کو نہ دینا ظلم ہے۔ اس طرح بچے بڑے ہو کر والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَلَیْسَ تُرِیدُ مِنْهُمْ الْبِرَّ مِثْلَ مَا تُرِیدُ مِنْ ذَا؟ قَالَ: بَلٰی!)) (صحیح مسلم مع الشرح : 2؍37۔) ’’کیا تو ان کی طرف سے حسن سلوک کا ارادہ رکھتا ہے جس طرح کہ تو ا س سے رکھتا ہے؟ کہا کہ کیوں نہیں ؟‘‘ (2) .... وراثت میں بیٹے کو دو بیٹیوں جتنا ملتا ہے: ﴿ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ (النساء : 11)لیکن اگر کوئی شخص فتنہ کے ڈر سے اپنی زندگی میں تقسیم کر دیتا ہے تو بھی درست ہے، کیونکہ اس میں حبب منفعت اور دفع مضرت پائی جات ہے۔
تخریج : صحیح البخاري،الهبة، باب الإشهاد علی الهبة : 5؍163، صحیح مسلم، الهبات،باب کراهیة تفضیل بعض الأولاد فی الهبة : 11؍67، 68 رقم : 14،18، مسند أحمد : (الفتح الرباني )9؍46، صحیح ابن حبان : (الموارد): 280، 501، موطا : 4؍42، مسند طیالسي: 1؍280، الأدب المفرد، بخاري : 1؍171، تاریغ بغداد : 12؍28۔ (1).... اولاد میں برابری کی بنیاد پر تحائف دئیے جائیں۔ کسی کو دینا اور کسی کو نہ دینا ظلم ہے۔ اس طرح بچے بڑے ہو کر والدین کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أَلَیْسَ تُرِیدُ مِنْهُمْ الْبِرَّ مِثْلَ مَا تُرِیدُ مِنْ ذَا؟ قَالَ: بَلٰی!)) (صحیح مسلم مع الشرح : 2؍37۔) ’’کیا تو ان کی طرف سے حسن سلوک کا ارادہ رکھتا ہے جس طرح کہ تو ا س سے رکھتا ہے؟ کہا کہ کیوں نہیں ؟‘‘ (2) .... وراثت میں بیٹے کو دو بیٹیوں جتنا ملتا ہے: ﴿ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ﴾ (النساء : 11)لیکن اگر کوئی شخص فتنہ کے ڈر سے اپنی زندگی میں تقسیم کر دیتا ہے تو بھی درست ہے، کیونکہ اس میں حبب منفعت اور دفع مضرت پائی جات ہے۔