كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، أَنا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ] سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: ((نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوَسْمِ فِي الْوَجْهِ وَالضَّرْبِ فِي الْوَجْهِ))
کتاب
باب
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے پرداغنے اورچہرے پر مارنے سے منع کیا ہے۔
تشریح :
(1).... لوہا گرم کر کے چہرے پر داغنا اور نشان لگانا یہ حرام ہے، انسان اور جانور دونوں کے چہرے پر داغنا ممنوع ہے۔ چہرے پر مارنا بھی جائز نہیں ہے۔ انسان کے چہرے پر مارنا حرام ہے، اس کے احترام و تکریم کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ انسان کا چہرہ محاسن کا مجموعہ ہے اورلطیف و نرم ہے، ضرب کا نشان پڑ سکتا اور اسے عیب دار بنا سکتا ہے۔انسان کے علاوہ حیوانوں کے چہرے پر مارنے کی بھی سنگینی آئی ہے، جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
((اِنَّ النَّبِیَّ صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَیْهِ حِمَارٌ قَدْ وُسِمَ فِیْ وَجْهِهٖ فَقَالَ لَعَنَ اللّٰهُ الَّذِی وَسَمَه)) (صحیح مسلم مع الشرح : 2؍202۔)
’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا، اس کے چہرے پر داغا گیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس پر لعنت کرے جس نے اس کو داغا ہے۔‘‘
قاعدہ ہے کہ جس کام پر لعنت کی جائے یقیناوہ حرام ہوتا ہے۔
(2) .... انسان کے چہرے کے علاوہ باقی وجود کے کسی حصے پر بھی داغا نہیں جا سکتا۔ البتہ جانوروں میں چہرے کے علاوہ باقی وجود کے کسی حصے پر داغنا بہ طور نشانی جائز ہے۔ بلکہ زکوٰۃ اور جزیے کے اونٹوں میں مستحب ہے۔ جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ام سلیم رضی اللہ عنہا کے ہاں بچہ تولد ہوا تو انہوں نے مجھے کہا کہ اے انس! اس بچے کو دیکھ،یہ ہرگز کسی چیز کو نہ پہنچے، یہاں تک کہ صبح صبح اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اسے تحنیک (گڑتی)دیں گے۔ کہا کہ میں صبح گیا تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سیاہ چادر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اونٹ کو داغ رہے تھے جو فتح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا۔( صحیح مسلم مع الشرح : 2؍203۔)
دوسری حدیث میں بکری کو کان میں داغنے کا ذکر ہے۔( صحیح مسلم مع الشرح : 2؍203۔)
(3) .... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب داغنے لگیں تو بکری کو کانوں پر،اونٹ گائے کو رانوں کی جڑوں میں داغا جائے، کیوں کہ یہ سخت جگہ ہے، یہاں تکلیف کم ہوگی اور بالوں کے ہلکا ہونے کی وجہ سے نشان ظاہر ہوگا۔( شرح صحیح مسلم : 2؍203۔)
(4) .... جانوروں میں چہرے کے علاوہ جسم پر داغنا جائز ہے اور زکوٰۃ اور جزیے کے جانوروں میں مستحب ہے، سب صحابہ اور جمہور علماء کا موقف ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے، کیوں کہ یہ تعذیب ہے اور مثلہ ہے اور مثلے سے منع کیا گیا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمہور کی حجت وہ صریح احادیث ہیں جوامام مسلم نے بیان کی ہیں اور بہت سے وہ آثار جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے آئے ہیں اور کبھی یہ جانور بدک کر بھاگ جاتے ہیں توانہیں پانے والا ان کی علامت سے اعلان کرتا اور انہیں واپس کر دیتا ہے۔ رہی بات مثلے اور تعذیب کی تو وہ عام ہے اور داغنے کی حدیث خاص ہے، لہٰذا اس کی تقدیم واجب ہے، واللہ اعلم(شرح صحیح مسلم : 2؍203۔)
تخریج :
صحیح مسلم، اللباس والزینة : 14؍96، باب النهي عن ضرب الحیوان و وسمه رقم : 106، 107، جامع ترمذي، الجهاد : 3، باب کراهة التحریش بین البهائم والضرب والوسم في الوجه : 5؍367، مسند أحمد : 3؍318، 378، صحیح ابن حبان : (الموارد)، الأدب : 48، باب وسم الدواب : 491۔
(1).... لوہا گرم کر کے چہرے پر داغنا اور نشان لگانا یہ حرام ہے، انسان اور جانور دونوں کے چہرے پر داغنا ممنوع ہے۔ چہرے پر مارنا بھی جائز نہیں ہے۔ انسان کے چہرے پر مارنا حرام ہے، اس کے احترام و تکریم کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ انسان کا چہرہ محاسن کا مجموعہ ہے اورلطیف و نرم ہے، ضرب کا نشان پڑ سکتا اور اسے عیب دار بنا سکتا ہے۔انسان کے علاوہ حیوانوں کے چہرے پر مارنے کی بھی سنگینی آئی ہے، جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
((اِنَّ النَّبِیَّ صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَیْهِ حِمَارٌ قَدْ وُسِمَ فِیْ وَجْهِهٖ فَقَالَ لَعَنَ اللّٰهُ الَّذِی وَسَمَه)) (صحیح مسلم مع الشرح : 2؍202۔)
’’بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گزرا، اس کے چہرے پر داغا گیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس پر لعنت کرے جس نے اس کو داغا ہے۔‘‘
قاعدہ ہے کہ جس کام پر لعنت کی جائے یقیناوہ حرام ہوتا ہے۔
(2) .... انسان کے چہرے کے علاوہ باقی وجود کے کسی حصے پر بھی داغا نہیں جا سکتا۔ البتہ جانوروں میں چہرے کے علاوہ باقی وجود کے کسی حصے پر داغنا بہ طور نشانی جائز ہے۔ بلکہ زکوٰۃ اور جزیے کے اونٹوں میں مستحب ہے۔ جیسا کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب ام سلیم رضی اللہ عنہا کے ہاں بچہ تولد ہوا تو انہوں نے مجھے کہا کہ اے انس! اس بچے کو دیکھ،یہ ہرگز کسی چیز کو نہ پہنچے، یہاں تک کہ صبح صبح اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اسے تحنیک (گڑتی)دیں گے۔ کہا کہ میں صبح گیا تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سیاہ چادر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس اونٹ کو داغ رہے تھے جو فتح میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا۔( صحیح مسلم مع الشرح : 2؍203۔)
دوسری حدیث میں بکری کو کان میں داغنے کا ذکر ہے۔( صحیح مسلم مع الشرح : 2؍203۔)
(3) .... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب داغنے لگیں تو بکری کو کانوں پر،اونٹ گائے کو رانوں کی جڑوں میں داغا جائے، کیوں کہ یہ سخت جگہ ہے، یہاں تکلیف کم ہوگی اور بالوں کے ہلکا ہونے کی وجہ سے نشان ظاہر ہوگا۔( شرح صحیح مسلم : 2؍203۔)
(4) .... جانوروں میں چہرے کے علاوہ جسم پر داغنا جائز ہے اور زکوٰۃ اور جزیے کے جانوروں میں مستحب ہے، سب صحابہ اور جمہور علماء کا موقف ہے۔ لیکن امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ مکروہ ہے، کیوں کہ یہ تعذیب ہے اور مثلہ ہے اور مثلے سے منع کیا گیا ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ اس کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جمہور کی حجت وہ صریح احادیث ہیں جوامام مسلم نے بیان کی ہیں اور بہت سے وہ آثار جو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے آئے ہیں اور کبھی یہ جانور بدک کر بھاگ جاتے ہیں توانہیں پانے والا ان کی علامت سے اعلان کرتا اور انہیں واپس کر دیتا ہے۔ رہی بات مثلے اور تعذیب کی تو وہ عام ہے اور داغنے کی حدیث خاص ہے، لہٰذا اس کی تقدیم واجب ہے، واللہ اعلم(شرح صحیح مسلم : 2؍203۔)