كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، أَنا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ الَّذِي يُقَالُ لَهُ: سَيْفُ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ خَالَتُهُ وَخَالَةُ ابْنِ عَبَّاسٍ، فَوَجَدَ عِنْدَهَا ضَبًّا مَحْنُوذًا قَدِمَتْ بِهِ أُخْتُهَا حُفَيْدَةُ بِنْتُ الْحَارِثِ مِنْ نَجْدٍ، فَقَدَّمَتِ الضَّبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ قَلَّمَا يُقَدَّمُ إِلَيْهِ الطَّعَامُ حَتَّى يُحَدَّثَ بِهِ ويُسَمَّى لَهُ، فَأَهْوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَى الضَّبِّ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ النِّسْوَةِ الْحُضُورِ: أَخْبِرنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا قَدَّمْتُنَّ لَهُ، قُلْنَ: هُوَ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَنِ الضَّبِّ، فَقَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: أَحَرَامٌ الضَّبُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: ((لَا، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ)) . قَالَ خَالِدٌ: فَاجْتَرَرْتُهُ فَأَكَلْتُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَيَّ فَلَمْ يَنْهَنِي
کتاب
باب
سیدنا خالد بن ولید سیف اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ہیں اور خالد رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہا کی خالہ ہیں، آپ نے ان کے ہاں بھنا ہوا ساہنہ پایا جسے ان کی بہن حفیدہ بنت حارث نجد سے لے کر آئی تھیں، انہوں نے وہ ساہنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پیش کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کم ہی اپنا ہاتھ کھانے کی طر ف بڑھاتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے بیان کیا جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کا نام لیا جاتا، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ ساہنے کی طرف بڑھایا تو وہاں موجود عورتوں میں سے ایک عورت نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دو، جو تم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیش کیا ہے،ا نہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ ساہنہ ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساہنے سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیا ساہنہ حرام ہے اے اللہ کے رسول!؟ فرمایا کہ نہیں، لیکن وہ میری قوم کی سرزمین پر ہوتا نہیں، اور میری طبیعت اس سے انکار کرتی ہے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پس میں نے اسے کھینچ لیا اور کھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھ رہے تھے اور مجھے منع نہیں فرمایا۔
تشریح :
’’ضب‘‘ سے مراد ساہنہ ہے نہ کہ گوہ، یہی راجح ہے۔ ساہنہ ایک مشہور جنگلی جانور ہے جو کہ حلال ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا اور فرمایا:
((الضَّبُّ لَسْتُ آکُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ)) (صحیح بخاري: 5536۔)
’’ساہنہ میں خود نہیں کھاتا لیکن اسے حرام بھی قرار نہیں دیتا۔‘‘
مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کوئی کھائے یا نہ کھائے۔ یہ امر اختیاری ہے مگر ساہنہ کا کھانا بلاتردد جائز و حلال ہے۔ امام احمد اور امام طحاوی نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساہنہ کے گوشت کی ہانڈیاں الٹ دی تھیں۔ یہ اس پر محمول ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے مسخ ہونے کا گمان تھا پھر یہ گمان جاتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کے کھانے کی اجازت دی۔( شرح صحیح بخاري، اردو،از داؤد راز : 7؍215۔)
تخریج :
صحیح بخاري: 5537، صحیح مسلم، الصید والذبائح: 13؍98، 99، 100، رقم : 43، 44، 45، سنن ابي داؤد،ا لأطعمة : 8، باب أکل الضب رقم : 369، موطا : الکتاب الجامع : 4؍369، مسند أحمد (الفتح الرباني )17؍67، سنن دارمي: 8، أکل الضب : 2؍10، سنن الکبریٰ بیهقي: 9؍323، معانی الآثار، طحاوي : 4؍102، مشکل الأثار، طحاوي : 4؍281، طبقات ابن سعد : 1؍296، مجمع الزوائد، هیثمي : 4؍38، تلخیص الحبیر، ابن حجر : 4؍102۔
’’ضب‘‘ سے مراد ساہنہ ہے نہ کہ گوہ، یہی راجح ہے۔ ساہنہ ایک مشہور جنگلی جانور ہے جو کہ حلال ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں کھایا اور فرمایا:
((الضَّبُّ لَسْتُ آکُلُهُ وَلَا أُحَرِّمُهُ)) (صحیح بخاري: 5536۔)
’’ساہنہ میں خود نہیں کھاتا لیکن اسے حرام بھی قرار نہیں دیتا۔‘‘
مولانا محمد داؤد راز رحمہ اللہ فرماتے ہیں، کوئی کھائے یا نہ کھائے۔ یہ امر اختیاری ہے مگر ساہنہ کا کھانا بلاتردد جائز و حلال ہے۔ امام احمد اور امام طحاوی نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساہنہ کے گوشت کی ہانڈیاں الٹ دی تھیں۔ یہ اس پر محمول ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے مسخ ہونے کا گمان تھا پھر یہ گمان جاتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس کے کھانے کی اجازت دی۔( شرح صحیح بخاري، اردو،از داؤد راز : 7؍215۔)