كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، ثَنَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، أَنا الْمَسْعُودِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((الْحَيَّةُ فَاسِقَةٌ، وَالْعَقْرَبُ فَاسِقَةٌ، وَالْفَأْرَةُ فَاسِقَةٌ، وَالْغُرَابُ فَاسِقٌ))، قَالَ: فَقَالَ إِنْسَانٌ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ: أَيُؤْكَلُ الْغُرَابُ؟ فَقَالَ: مَنْ يَأْكُلُهُ بَعْدَ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((فَاسِقٌ))
کتاب
باب
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سانپ فاسق ہے اور بجو فاسق ہے اور چوہیا فاسق ہے اور کوا فاسق ہے۔ کہا کہ ایک انسان نے قاسم بن محمدسے کہا کہ کیا کوا کھایا جا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بعد وہ فاسق ہے۔ اسے کون کھائے گا؟
تشریح :
(1).... قرآن مجیدمیں ہے:
﴿ يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ﴾ (المائدہ : 4)
’’تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیاحلال کیا گیا ہے؟ کہہ دے تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دین کا ایک عظیم الشان اصول بیان فرمایا ہے جسے فقہی زبان میں یوں ادا کیا جاتا ہے، ’’ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔‘‘ یعنی کھانے پینے کی تمام طیبات یعنی ستھری چیزیں حلال ہیں، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوچیزیں حرام فرمائیں، معلوم ہوا وہ ستھری نہیں، جیسے کچلی والے درندے اورپنجے سے شکار کرنے والے پرندے، یا جن کا نام لے کر حرام قرار دے دیا، باقی سب حلال ہیں۔ اس قاعدے سے حرام اشیاء کا دائرہ تنگ ہو گیا اور حلال اشیاء کا دائرہ وسیع ہو گیا۔
(2) .... اسی طرح اس حدیث میں جن چیزوں کو فاسق کہا گیا وہ بھی ستھری نہیں ہیں بلکہ خبیث اور حرام ہیں۔ کوا بطور خاص۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پنجوں سے شکار کرنے والے پرندے بھی حرام قرار دیے ہیں اور کوا بھی انہی میں سے ہے۔
تخریج :
سنن ابن ماجة: 3249، سنن أبي داؤد : 3249، مسند أحمد : 6؍209، 238، معاني الآثار،طحاوی،کتاب الحج : 2؍166، سنن الکبریٰ بیهقي: 9؍316، تلخیص الجیر،ابن حجر : 2؍274، نصب الرایة،زیلعي : 3؍131، 3؍136۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1).... قرآن مجیدمیں ہے:
﴿ يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ﴾ (المائدہ : 4)
’’تجھ سے پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیاحلال کیا گیا ہے؟ کہہ دے تمہارے لیے پاکیزہ چیزیں حلال کی گئی ہیں۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دین کا ایک عظیم الشان اصول بیان فرمایا ہے جسے فقہی زبان میں یوں ادا کیا جاتا ہے، ’’ہر چیز کی اصل اباحت ہے۔‘‘ یعنی کھانے پینے کی تمام طیبات یعنی ستھری چیزیں حلال ہیں، سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوچیزیں حرام فرمائیں، معلوم ہوا وہ ستھری نہیں، جیسے کچلی والے درندے اورپنجے سے شکار کرنے والے پرندے، یا جن کا نام لے کر حرام قرار دے دیا، باقی سب حلال ہیں۔ اس قاعدے سے حرام اشیاء کا دائرہ تنگ ہو گیا اور حلال اشیاء کا دائرہ وسیع ہو گیا۔
(2) .... اسی طرح اس حدیث میں جن چیزوں کو فاسق کہا گیا وہ بھی ستھری نہیں ہیں بلکہ خبیث اور حرام ہیں۔ کوا بطور خاص۔ نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پنجوں سے شکار کرنے والے پرندے بھی حرام قرار دیے ہیں اور کوا بھی انہی میں سے ہے۔