مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 202

كِتَابُ بَابٌ أَخْبَرَنَا الشَّيْخُ أَبُو الْقَاسِمِ الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ مُحَمَّدٍ اْلْأَسَدِيُّ، بِقِرَاءَتِي عَلَيْهِ بِدَارِهِ أنبأ أَبُو الْفَرَجِ سَهْلُ بْنُ بِشْرِ بْنِ أَحْمَدَ اْلْأَسْفِرَايِنِّيُّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ أَنا أَبُو الْفَرَجِ عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ عُمَرَ بْنِ بُرْهَانٍ الْغَزَّالُ الْبَغْدَادِيُّ بِثَغْرِ صُورَ أَنا أَبُو يَعْقُوبَ إِسْحَاقَ بْنُ سَعْدِ بْنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سُفْيَانَ الْفَسَوِيُّ فِي صَفَرٍ سَنَةَ اثْنَتَيْنِ وَسَبْعِينَ وَثَلََاثِمِائَةٍ أنبأ جَدِّي أَبُو الْعَبَّاسِ الْحُسَيْنُ بْنُ سُفْيَانَ، نَا حَبَّانُ بْنُ مُوسَى، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ السَّعْدِيِّ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ، عَنِ الضَّبُعِ؟ فَقَالَ: إِنَّ أَكْلَهَا لَا يَصْلُحُ، وَهَلْ يَأْكُلُهَا أَحَدٌ؟ قُلْتُ: إِنَّ نَاسًا مِنْ قَوْمِي لَيَتَحَمَّلُونَهَا فَيَأْكُلُونَهَا. فَقَالَ: إِنَّ أَكْلَهَا لَا يَصْلُحُ. فَقَالَ شَيْخٌ عِنْدَهُ: إِنْ شِئْتَ حَدَّثْتُكَ، مَا سَمِعْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ يَقُولُ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: ((نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ كُلِّ نُهْبَةٍ، وَعَنْ كُلِّ خَطْفَةٍ، وَعَنْ كُلِّ مُجَثَّمَةٍ، وَعَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ))، فَقَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ: صَدَقْتَ

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 202

کتاب باب یزید بن عبد اللہ سعدی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے بجو کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ بے شک اس کا کھانا درست نہیں ہے اور کیا کوئی اسے کھاتا ہے؟ میں نے کہا کہ بے شک میری قوم کے کچھ لوگ اسے اٹھالاتے اور کھاتے ہیں تو فرمایا کہ یقینا اس کا کھانا درست نہیں ہے۔ ایک شیخ نے،جو ان کے پاس تھے، فرمایا: اگر تم چاہو تومیں تجھے وہ بیان کرتا ہوں، جومیں نے ابو درداء رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: وہ کہتے ہیں کہ میں نے انہیں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: ہر ایک ڈاکے سے، ہر ایک چھینا جھپٹی سے اور ہر نشانہ بنا کر مارے گئے جانور سے اور درندوں میں سے ہر ایک کچلی والے سے۔ سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے کہاکہ آپ نے سچ کہا۔
تشریح : (1).... ’’ضبع‘‘ ساہنہ، اس کی حلت و حرمت کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حلال ہے۔ ابن ابی عمار بیان کرتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا ساہنہ شکار ہے؟ کہا کہ ہاں۔میں نے کہا کہ کیا میں اسے کھا سکتا ہوں ؟کہا کہ ہاں،میں نے کہا کہ کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ کہا کہ ہاں۔ (جامع ترمذي مع تحفة الأحوذي : 3؍75 رقم : 1872۔) (2) .... نیل الأوطار میں ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ اسے (ساہنے کو(کھاتے رہے اور صفا و مروہ کے درمیان خرید و فروخت کرتے رہے، بغیر کسی انکار کے، اس لیے کہ عرب لوگ اسے بہت اچھا سمجھتے اور اس کی تعریف کرتے ہیں۔( تحفة الأحوذي : 3؍75۔) (3)بعض لوگوں نے جو ساہنہ کو مکروہ یا حرام کہتے ہیں، یہ دلیل پیش کی ہے کہ یہ ایک درندہ ہے اورہر کچلی والے درندے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا جواب دو طرح سے ہے۔ ایک یہ کہ یہ خاص ہے۔ کچلی والے درندوں والی حدیث عام ہے اور عام میں تخصیص، دلیل کے ساتھ ہو جاتی ہے، دوسرا یہ کہ امام ابن رسلان نے فرمایا کہ کہا جاتا ہے کہ ساہنے کی کچلی نہیں ہوتی اور میں نے سنا اس سے جو ذکر کر رہا تھاکہ اس کے سارے دانت ایک ہڈی ہوتی ہے، جس طرح گھوڑے کے پاؤں کا سم ہوتا ہے، لہٰذا یہ کچلی والا درندہ نہ ہوا، تو حرام بھی نہ ہوا۔( تحفة الأحوذي : 3؍75۔)
تخریج : مسند أحمد : 275؍2، مجمع الزوائد، هیثمي : 4؍39، جامع ترمذي: 5؍501، سنن سعید بن منصور : 7؍49۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح لغیرہ‘‘ کہا ہے۔ (1).... ’’ضبع‘‘ ساہنہ، اس کی حلت و حرمت کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ یہ حلال ہے۔ ابن ابی عمار بیان کرتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا ساہنہ شکار ہے؟ کہا کہ ہاں۔میں نے کہا کہ کیا میں اسے کھا سکتا ہوں ؟کہا کہ ہاں،میں نے کہا کہ کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ کہا کہ ہاں۔ (جامع ترمذي مع تحفة الأحوذي : 3؍75 رقم : 1872۔) (2) .... نیل الأوطار میں ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ اسے (ساہنے کو(کھاتے رہے اور صفا و مروہ کے درمیان خرید و فروخت کرتے رہے، بغیر کسی انکار کے، اس لیے کہ عرب لوگ اسے بہت اچھا سمجھتے اور اس کی تعریف کرتے ہیں۔( تحفة الأحوذي : 3؍75۔) (3)بعض لوگوں نے جو ساہنہ کو مکروہ یا حرام کہتے ہیں، یہ دلیل پیش کی ہے کہ یہ ایک درندہ ہے اورہر کچلی والے درندے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کا جواب دو طرح سے ہے۔ ایک یہ کہ یہ خاص ہے۔ کچلی والے درندوں والی حدیث عام ہے اور عام میں تخصیص، دلیل کے ساتھ ہو جاتی ہے، دوسرا یہ کہ امام ابن رسلان نے فرمایا کہ کہا جاتا ہے کہ ساہنے کی کچلی نہیں ہوتی اور میں نے سنا اس سے جو ذکر کر رہا تھاکہ اس کے سارے دانت ایک ہڈی ہوتی ہے، جس طرح گھوڑے کے پاؤں کا سم ہوتا ہے، لہٰذا یہ کچلی والا درندہ نہ ہوا، تو حرام بھی نہ ہوا۔( تحفة الأحوذي : 3؍75۔)