مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 2

كِتَابُ بَابٌ أَخْبَرَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنِ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , أَنَّهُمْ ذَكَرُوا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا , فَقَالُوا: لَا يَأْكُلُ حَتَّى يَطْعَمَ , وَلَا يَرْحَلَ حَتَّى يُرْحَلَ لَهُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((اغْتَبْتُمُوهُ)) , فَقَالُوا: إِنَّمَا حَدَّثَنَا مَا فِيهِ , قَالَ: ((فَحَسْبُكَ إِذَا ذَكَرْتَ أَخَاكَ بِمَا فِيهِ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 2

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں (صحابہ رضی اللہ عنہم (نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک آدمی کاذکر کیا اور کہا کہ (کوئی)نہیں کھاتا، یہاں تک کہ وہ کھا لے اور وہ کوچ نہیں کرتا، یہاں تک کہ اس کے لیے سفر کیا جائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اس کی غیبت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تو وہی (عیب(بیان کیا جو اس میں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نے وہ (عیب(بیان کردیا جو تمہارے بھائی میں ہے تو یہی تجھے (گناہ گار بنانے کے لیے)کافی ہے۔
تشریح : (1) .... یہاں غیبت کی مذمت کا بیان ہے، جو کہ کبیرہ گنا ہ ہے، ساتھ ہی غیبت کی تعریف بھی ذکر کر دی گئی کہ کسی کی عدم موجودگی میں اس کی برائی بیان کرنا، غیبت کہلاتا ہے، یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ کہ میں نے حق اور سچ ہی تو کہا ہے، بہتان تھوڑا لگایا ہے، اس پرمستزاد یہ کہ اسے آپ کا بھائی کہا گیا، جس سے یہ تاثر ملا کہ غیبت کوئی عام گناہ نہیں ہے، بلکہ یہ اخوت دینی کے بھی منافی ہے اور بھائی تو بھائی کا خیر خواہ اور پردہ پوشی کرنے والا ہوتا ہے، نہ کہ اس کے عیبوں کو اچھالنے والا اور لغزشوں کو ہوا دینے والا ہوتا ہے۔ (2) .... قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ ﴾ (الحجرات : 12) ’’اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے، جبکہ وہ مردہ ہو، سو تم اسے ناپسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو،یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ یعنی جس طرح تمہاری طبیعت اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے تصور سے بھی متلاتی ہے، ایسی ہی نفرت غیبت سے بھی ہونی چاہیے۔ (3) .... معراج والی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لَمَّا عُرِجَ بِی مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ یَخْمُشُونَ وُجُوہَہُمْ وَصُدُورَهُمْ، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: هَؤُلَائِ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ وَیَقَعُونَ فِی أَعْرَاضِهِمْ))( سنن ابو داؤد،حدیث : 4878۔) ’’جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے، وہ (ان سے)اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے تو میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں (غیبت کرتے ہیں (اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے ہیں۔‘‘ (4) .... واضح رہے کہ غیبت کا گناہ اس وقت مزید قبیح و شنیع بن جاتا ہے جب علمائے کرام اس کی زد میں آرہے ہوں، سوشل میڈیا کے اس دور میں کئی ایسے چینلز ہیں کہ جن کا مقصد ہی اہل علم کی ساکھ کو خراب اوران کے وقار کو مجروح کرنا ہے۔ حاملین دین متین کے خلاف ان کی ہرزہ سرائیاں ہمیشہ عروج پر رہتی ہیں۔ ھداہم اللّٰہ تعالیٰ۔بعض سلف کا قول ہے: ’’إِنَّ لُحُوْمَ الْعُلَمَاءِ مَسْمُوْمَةٌ‘‘ ’’بے شک علماء کے گوشت زہریلے ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی غیبت کرنے والا، اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے اور اگر علماء کی غیبت کرے گا تو گویا زہریلا گوشت کھائے گا، پھر وہ کیسے بچ سکے گا؟ (5) .... بعض حالات میں انکشاف حقیقت کے لیے کسی کے عیوب کی طرف انگشت نمائی انتہائی ضرورت بن جاتی ہے۔ اور ابن ابی شریف نے ان چھ چیزوں کو یوں بیان کیا ہے: القدح لیس بغیبة فی ستة متظلم ومعرف و محذر ولمظھر فسفا ومستفت ومن طلب الإعانة فی إزالة منکر(سنن ابو داؤد،حدیث : 4878۔) ’’چھ چیزوں میں طعن کرنا غیبت شمار نہیں ہوتا۔‘‘ (1)ظلم و زیادتی کی شکایت کرنے والا۔ (2)تعارف اور شناخت کروانے والا (3)بچانے اور ڈرانے والا (4)فسق و فجور کو ظاہر کرنے والا (5(فتویٰ طلب کرنے والا (6(جس نے برائی کے ازالے کے لیے مدد طلب کی۔
تخریج : الزهد، ابن مبارك، حدیث : 245، حلیة الاولیاء، ابو نعیم : 8؍189، سلسلة الصحیحة، حدیث : 2667۔ (1) .... یہاں غیبت کی مذمت کا بیان ہے، جو کہ کبیرہ گنا ہ ہے، ساتھ ہی غیبت کی تعریف بھی ذکر کر دی گئی کہ کسی کی عدم موجودگی میں اس کی برائی بیان کرنا، غیبت کہلاتا ہے، یعنی کوئی یہ نہ سمجھے کہ کہ میں نے حق اور سچ ہی تو کہا ہے، بہتان تھوڑا لگایا ہے، اس پرمستزاد یہ کہ اسے آپ کا بھائی کہا گیا، جس سے یہ تاثر ملا کہ غیبت کوئی عام گناہ نہیں ہے، بلکہ یہ اخوت دینی کے بھی منافی ہے اور بھائی تو بھائی کا خیر خواہ اور پردہ پوشی کرنے والا ہوتا ہے، نہ کہ اس کے عیبوں کو اچھالنے والا اور لغزشوں کو ہوا دینے والا ہوتا ہے۔ (2) .... قرآن مجید میں ہے: ﴿ وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ ﴾ (الحجرات : 12) ’’اور نہ تم میں سے کوئی دوسرے کی غیبت کرے، کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے بھائی کا گوشت کھائے، جبکہ وہ مردہ ہو، سو تم اسے ناپسند کرتے ہو اور اللہ سے ڈرو،یقینا اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘ یعنی جس طرح تمہاری طبیعت اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے تصور سے بھی متلاتی ہے، ایسی ہی نفرت غیبت سے بھی ہونی چاہیے۔ (3) .... معراج والی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((لَمَّا عُرِجَ بِی مَرَرْتُ بِقَوْمٍ لَهُمْ أَظْفَارٌ مِنْ نُحَاسٍ یَخْمُشُونَ وُجُوہَہُمْ وَصُدُورَهُمْ، فَقُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ یَا جِبْرِیلُ؟ قَالَ: هَؤُلَائِ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ لُحُومَ النَّاسِ وَیَقَعُونَ فِی أَعْرَاضِهِمْ))( سنن ابو داؤد،حدیث : 4878۔) ’’جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا گزر کچھ ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے، وہ (ان سے)اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے تو میں نے پوچھا: جبریل! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے فرمایا: یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں (غیبت کرتے ہیں (اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے ہیں۔‘‘ (4) .... واضح رہے کہ غیبت کا گناہ اس وقت مزید قبیح و شنیع بن جاتا ہے جب علمائے کرام اس کی زد میں آرہے ہوں، سوشل میڈیا کے اس دور میں کئی ایسے چینلز ہیں کہ جن کا مقصد ہی اہل علم کی ساکھ کو خراب اوران کے وقار کو مجروح کرنا ہے۔ حاملین دین متین کے خلاف ان کی ہرزہ سرائیاں ہمیشہ عروج پر رہتی ہیں۔ ھداہم اللّٰہ تعالیٰ۔بعض سلف کا قول ہے: ’’إِنَّ لُحُوْمَ الْعُلَمَاءِ مَسْمُوْمَةٌ‘‘ ’’بے شک علماء کے گوشت زہریلے ہوتے ہیں۔‘‘ یعنی غیبت کرنے والا، اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے اور اگر علماء کی غیبت کرے گا تو گویا زہریلا گوشت کھائے گا، پھر وہ کیسے بچ سکے گا؟ (5) .... بعض حالات میں انکشاف حقیقت کے لیے کسی کے عیوب کی طرف انگشت نمائی انتہائی ضرورت بن جاتی ہے۔ اور ابن ابی شریف نے ان چھ چیزوں کو یوں بیان کیا ہے: القدح لیس بغیبة فی ستة متظلم ومعرف و محذر ولمظھر فسفا ومستفت ومن طلب الإعانة فی إزالة منکر(سنن ابو داؤد،حدیث : 4878۔) ’’چھ چیزوں میں طعن کرنا غیبت شمار نہیں ہوتا۔‘‘ (1)ظلم و زیادتی کی شکایت کرنے والا۔ (2)تعارف اور شناخت کروانے والا (3)بچانے اور ڈرانے والا (4)فسق و فجور کو ظاہر کرنے والا (5(فتویٰ طلب کرنے والا (6(جس نے برائی کے ازالے کے لیے مدد طلب کی۔