كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي أَبُو الْوَدَّاكِ، حَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، قَالَ: أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ خَيْبَرَ، فَكُنَّا نَعْزِلُ عَنهُنَّ، وَنَحْنُ نَلْتَمِسُ مَنْ يُقَادُ بِهِنَّ مِنْ أَهْلِيهِنَّ، فَقَالَ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ: تَعْمَلُونَ هَذَا وَفِيكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ ائْتُوهُ فَسَلُوهُ، فَأَتَيْنَاهُ فذَكَرْنَا ذَلِكَ، فَقَالَ: ((مَا مِنْ كُلِّ الْمَاءِ يَكُونُ الْوَلَدُ، إِذَا قَضَى اللَّهُ أَمْرًا كَانَ)) . قَالَ: فَمُرَّ بِالْقُدُورِ وَهِيَ تَغْلِي، فَقَالَ لَنَا: ((مَا هَذَا اللَّحْمُ؟))، قُلْنَا: لُحُومُ الْحُمُرِ. قَالَ: ((أَهْلِيَّةٌ أَوْ وَحْشِيَّةٌ؟))، قُلْنَا: لَا، بَلْ هِيَ أَهْلِيَّةٌ. قَالَ لَنَا: ((فَاكْفُوهَا))، فَكَفَأْنَاهَا وَإِنَّا لَجِيَاعٌ نَشتَهِيهَا. قَالَ: وَكُنَّا يَوْمَهَا نُوكِي الْأَسْقِيَةَ
کتاب
باب
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم خیبر والے دن لونڈیوں کو پہنچے، ہم ان سے عزل کرتے تھے اور ہم تلاش کر رہے تھے کہ ان کے گھر والوں میں سے کون ان کا فدیہ دیتا ہے، تو ہمارے بعض نے بعض سے کہا کہ تم یہ کر رہے ہو اور تمہارے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں ؟ سو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر پانی سے بچہ نہیں ہوتا، جب اللہ کسی کام کا فیصلہ کر دیتا ہے تو ہو جاتا ہے، کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنڈیوں کے پاس گزرے اور وہ جوش مار رہی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیا گوشت ہے؟ ہم نے کہا کہ گدھوں کا گوشت ہے، فرمایا کہ گھریلو یا جنگلی؟ ہم نے کہا کہ نہیں بلکہ گھریلو ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا: ان کو انڈیل دو تو ہم نے انہیں انڈیل دیا اور بے شک ہم بھوکے تھے، ان کی خواہش رکھتے تھے، کہا کہ اور ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہم مشکیزوں کے منہ ڈوری سے باندھ کر رکھیں۔
تشریح :
حدیث پاک میں تین مسائل کی نشان دہی فرمائی گئی ہے۔
(1).... لونڈیوں سے عزل۔
(2) .... گھریلو گدھوں کے گوشت کی حرمت کا مسئلہ۔
(3) .... مشکیزوں کے منہ ڈوری سے باندھنا۔
گھریلو گدھوں کی حرمت کے بارے پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔ لونڈیوں سے عزل کے متعلق صحابہ رضی اللہ عنہم کا خیال تھاکہ ان کے ورثا آئیں اور فدیہ دے کر لے جائیں اور ہماری اولاد ان سے نہ ہو۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسی دوران وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !
((إِنَّا نُصِیبُ سَبْیًا فَنُحِبُّ الْأَثْمَانَ فَکَیْفَ تَرَی فِی الْعَزْلِ)) (صحیح بخاري: 2229۔)
’’بے شک ہم لونڈیوں کو پہنچتے ہیں اور ہم قیمتیں پسند کرتے ہیں تو عزل کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے؟‘‘
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا مقصد یہ تھا کہ جس روح نے آنا ہے وہ آکر ہی رہے گی، تمہارے عزل سے کچھ نہیں ہونے والا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل کی اتنی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی۔ واللہ اعلم۔البتہ آزاد عورت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔
رہا مسئلہ مشکیزوں کے منہ بند کرنے کا تو اس بارے میں احادیث میں ادب بیان ہوا ہے، چناں چہ صحیح بخاری میں ہے: ((وَأَوْکُوْا قِرَبَکُمْ)) (صحیح بخاري: 5623۔) ’’اور اپنے مشکیزوں کے منہ ڈوری سے باندھو۔‘‘
نیز فرمایا:
((وَأَوْکُوْا الْأَسْقِیَةَ)) (صحیح بخاري: 5624۔)
’’اور مشکیزوں کے منہ ڈوری سے باندھو۔‘‘
تاکہ کوئی کیڑامکوڑا اندر نہ چلا جائے یا پانی کے ضائع ہونے کا احتمال جاتا رہے۔
تخریج :
صحیح بخاري، البیوع، باب بیع الرقیق، : 4؍333، الرقاق، باب وکان أمر اللّٰه قدر مقدورا، : 11؍419، صحیح مسلم، النکاح : 10؍11، 12 رقم : 125، طبراني صغیر : 2؍55، سنن سعید بن منصور : 102، 103، مشکل الآثار، طحاوي، النکاح : 3؍33، 34، مسند أحمد (الفتح الرباني ) 16؍220، موطا: 416، باب ما جاء فی العزل : 3؍226، مسند احمد (الفتح الرباني ): 3؍65، مجمع الزوائد، هیثمي : 5؍48۔
حدیث پاک میں تین مسائل کی نشان دہی فرمائی گئی ہے۔
(1).... لونڈیوں سے عزل۔
(2) .... گھریلو گدھوں کے گوشت کی حرمت کا مسئلہ۔
(3) .... مشکیزوں کے منہ ڈوری سے باندھنا۔
گھریلو گدھوں کی حرمت کے بارے پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔ لونڈیوں سے عزل کے متعلق صحابہ رضی اللہ عنہم کا خیال تھاکہ ان کے ورثا آئیں اور فدیہ دے کر لے جائیں اور ہماری اولاد ان سے نہ ہو۔ جیسا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اسی دوران وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے کہ پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !
((إِنَّا نُصِیبُ سَبْیًا فَنُحِبُّ الْأَثْمَانَ فَکَیْفَ تَرَی فِی الْعَزْلِ)) (صحیح بخاري: 2229۔)
’’بے شک ہم لونڈیوں کو پہنچتے ہیں اور ہم قیمتیں پسند کرتے ہیں تو عزل کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا خیال ہے؟‘‘
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کا مقصد یہ تھا کہ جس روح نے آنا ہے وہ آکر ہی رہے گی، تمہارے عزل سے کچھ نہیں ہونے والا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عزل کی اتنی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی۔ واللہ اعلم۔البتہ آزاد عورت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔
رہا مسئلہ مشکیزوں کے منہ بند کرنے کا تو اس بارے میں احادیث میں ادب بیان ہوا ہے، چناں چہ صحیح بخاری میں ہے: ((وَأَوْکُوْا قِرَبَکُمْ)) (صحیح بخاري: 5623۔) ’’اور اپنے مشکیزوں کے منہ ڈوری سے باندھو۔‘‘
نیز فرمایا:
((وَأَوْکُوْا الْأَسْقِیَةَ)) (صحیح بخاري: 5624۔)
’’اور مشکیزوں کے منہ ڈوری سے باندھو۔‘‘
تاکہ کوئی کیڑامکوڑا اندر نہ چلا جائے یا پانی کے ضائع ہونے کا احتمال جاتا رہے۔