كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ،عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: ((كُنَّا نَأْكُلُ لُحُومَ الْخَيْلِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ))
کتاب
باب
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گھوڑوں کے گوشت کھایا کرتے تھے۔
تشریح :
(1).... اس حدیث میں گھوڑے کے گوشت کی حلت بیان ہوئی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں رخصت دی، صحیح مسلم میں ’’اجازت دی‘‘ اور دارقطنی میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا۔( تحفة الأحوذي : 3؍77۔)
(2) .... امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے گھوڑے کا گوشت مکروہ قرار دیا ہے، جب کہ ان کے دونوں شاگرد امام محمد رحمہ اللہ اور قاضی ابو یوسف اسے حلال سمجھتے ہیں۔ علامہ طحاوی حنفی ’’شرح الآثار‘‘ میں یہ موقف بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ (صاحبین کی)دلیل اور حجت وہ متواتر احادیث ہیں جو گھوڑے کی حلت کے بارے میں آئی ہیں اور ان میں گھوڑے اور گدھے میں فرق کیا گیا ہے کہ ایک ہی وقت میں گھوڑوں کے گوشت کھانے کو حلال قرار دیا اور گدھوں کے گوشت کو حرام قرا ر دیا۔( تحفة الأحوذي : 3؍77۔)
(3) .... حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ عطاء کا قول ہے: تیرے سلف صالحین ہمیشہ اسے کھاتے رہے ہیں۔ ابن جریج رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے اس سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ؟ تو اس نے کہا: ہاں۔( تحفة الأحوذي : 3؍77۔)
(4) .... بعض لوگوں نے آیت ﴿ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ﴾ (النحل : 8)’’اور گھوڑے اور خچر اور گدھے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے۔‘‘ سے گھوڑے کے گوشت کی حرمت پر دلیل لی ہے۔ حالاں کہ اس آیت میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس سے گھوڑے کی حرمت ثابت ہو۔ بلکہ یہاں صرف اللہ کے احسان و نعمت کاذکر ہے کہ گھوڑے، خچر اور گدھے، تمہاری سواری اور زینت کا باعث ہیں۔ باقی حلال اورحرام ہونا، اس کی وضاحت احادیث میں آئی ہے، گھوڑا سوار ی اور زینت کے اعتبار سے خچر اور گدھے جیسا ہے، لیکن گوشت کی حلت میں ان سے جدا ہے اور یہ فرق شریعت نے بیان کیا ہے۔
(5) .... گھوڑے کے گوشت کی عدم حلت کے قائل حضرات اس حدیث سے بھی دلیل لیتے ہیں کہ ابوداؤد میں ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔ اس کی سند کا دارومدار صالح بن یحییٰ پر ہے اور اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’فیه نظر‘‘ جس طرح کہ تہذیب التہذیب میں ہے اور ابن ھمام نے ’’التحریر‘‘ میں کہا کہ جب امام بخاری کسی راوی کے بارے میں کہیں : ’’فیہ نظر‘‘ تو اس کی حدیث نہ حجت ہوتی ہے، نہ استشہاد کے لیے صحیح ہوتی ہے اور نہ ہی اعتبار کے لیے۔
علامہ منذری نے تہذیب السنن میں کہا کہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے۔ اس حدیث کے ضعف و نکارت کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے فتح خیبر کے موقع پر ان جانوروں کے گوشت کی حرمت کا بیان ہوا ہے، جب کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فتح خیبر کے بعد مسلمان ہوئے۔ وہ خیبر کے موقع پر موجود نہ تھے۔ اس کی صراحت امام بخاری، امام احمد بن حنبل اور ابو عمر نمری رحمہم اللہ وغیرہ نے کی ہے۔( تحفة الأحوذي : 3؍77۔)
تخریج :
جامع ترمذی، الأطعمة : 5، باب أکل لحوم الخیل : 5؍505، سنن ابن ماجة، الذبائح : 14، باب لحوم البغال رقم : 3197، معانی الأثار، طحاوي : 4؍204، 211، سنن بیهقي: 9؍327۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1).... اس حدیث میں گھوڑے کے گوشت کی حلت بیان ہوئی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ گھوڑوں کے گوشت کے بارے میں رخصت دی، صحیح مسلم میں ’’اجازت دی‘‘ اور دارقطنی میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا۔( تحفة الأحوذي : 3؍77۔)
(2) .... امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے گھوڑے کا گوشت مکروہ قرار دیا ہے، جب کہ ان کے دونوں شاگرد امام محمد رحمہ اللہ اور قاضی ابو یوسف اسے حلال سمجھتے ہیں۔ علامہ طحاوی حنفی ’’شرح الآثار‘‘ میں یہ موقف بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ (صاحبین کی)دلیل اور حجت وہ متواتر احادیث ہیں جو گھوڑے کی حلت کے بارے میں آئی ہیں اور ان میں گھوڑے اور گدھے میں فرق کیا گیا ہے کہ ایک ہی وقت میں گھوڑوں کے گوشت کھانے کو حلال قرار دیا اور گدھوں کے گوشت کو حرام قرا ر دیا۔( تحفة الأحوذي : 3؍77۔)
(3) .... حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ عطاء کا قول ہے: تیرے سلف صالحین ہمیشہ اسے کھاتے رہے ہیں۔ ابن جریج رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے اس سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ؟ تو اس نے کہا: ہاں۔( تحفة الأحوذي : 3؍77۔)
(4) .... بعض لوگوں نے آیت ﴿ وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً ﴾ (النحل : 8)’’اور گھوڑے اور خچر اور گدھے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے۔‘‘ سے گھوڑے کے گوشت کی حرمت پر دلیل لی ہے۔ حالاں کہ اس آیت میں ایسا کوئی لفظ نہیں جس سے گھوڑے کی حرمت ثابت ہو۔ بلکہ یہاں صرف اللہ کے احسان و نعمت کاذکر ہے کہ گھوڑے، خچر اور گدھے، تمہاری سواری اور زینت کا باعث ہیں۔ باقی حلال اورحرام ہونا، اس کی وضاحت احادیث میں آئی ہے، گھوڑا سوار ی اور زینت کے اعتبار سے خچر اور گدھے جیسا ہے، لیکن گوشت کی حلت میں ان سے جدا ہے اور یہ فرق شریعت نے بیان کیا ہے۔
(5) .... گھوڑے کے گوشت کی عدم حلت کے قائل حضرات اس حدیث سے بھی دلیل لیتے ہیں کہ ابوداؤد میں ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا۔ اس کی سند کا دارومدار صالح بن یحییٰ پر ہے اور اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’فیه نظر‘‘ جس طرح کہ تہذیب التہذیب میں ہے اور ابن ھمام نے ’’التحریر‘‘ میں کہا کہ جب امام بخاری کسی راوی کے بارے میں کہیں : ’’فیہ نظر‘‘ تو اس کی حدیث نہ حجت ہوتی ہے، نہ استشہاد کے لیے صحیح ہوتی ہے اور نہ ہی اعتبار کے لیے۔
علامہ منذری نے تہذیب السنن میں کہا کہ امام ابو داؤد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ حدیث منسوخ ہے اور امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے۔ اس حدیث کے ضعف و نکارت کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس سے فتح خیبر کے موقع پر ان جانوروں کے گوشت کی حرمت کا بیان ہوا ہے، جب کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فتح خیبر کے بعد مسلمان ہوئے۔ وہ خیبر کے موقع پر موجود نہ تھے۔ اس کی صراحت امام بخاری، امام احمد بن حنبل اور ابو عمر نمری رحمہم اللہ وغیرہ نے کی ہے۔( تحفة الأحوذي : 3؍77۔)