مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 192

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، أَنا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((لَا تَقُولُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ وشَاءَ فُلَانٌ، وَلَكِنْ قُولُوا: مَا شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ شَاءَ فُلَانٌ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 192

کتاب باب سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس طرح(نہ کہو جو اللہ نے چاہا اور فلاں نے چاہا، بلکہ تم کہو، جو اللہ نے چاہا، پھر فلاں نے چاہا۔
تشریح : (1).... اگرچہ بندے کی مشیت بھی ہے، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے اور بندے کی اپنی چاہت پر کوئی قدرت نہیں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾ (التکویر : 29) ’’اور تم نہیں چاہتے الا یہ کہ اللہ چاہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔‘‘ نیز ارشاد فرمایا: ﴿ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ (الدھر : 30) ’’اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، جو یقینا اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ (2) .... عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے تقدیر کے منکروں کو اسی آیت سے لاجواب کیا تھا۔ خوراج کا ایک گروہ ان کے پاس آیا اور تقدیر کے انکار کی دلیل کے طور پر اسی سورت کی ابتداء میں یہ آیت پڑھی: ﴿ إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ﴾ (الدھر : 3) ’’یعنی ہم نے انسان کو راستہ بتا دیا ہے،اب چاہے تو شکر کرنے والا بن جائے، چاہے تو کفر کرنے والا۔‘‘ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا؛ آگے پڑھتے جاؤ، آخر میں یہ آیت آئی تو فرمایا: بے شک انسان جو راستہ چاہے اختیار کرے، مگر یہ اختیار بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ سے زبردست ہو کر کوئی شخص نہ نیک بن سکتا ہے نہ بد۔ ﴿ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ (الدھر : 30) یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت اندھی مشیت نہیں ہے، بلکہ وہ علیم و حکیم ہے اور اس کی مشیت اس کے علم و حکمت پر مبنی ہے۔ وہ انہی لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو اس کے علم و حکمت کے مطابق اس کے اہل ہیں۔ ( تفسیر القرآن الکریم : 4؍882۔) (3) .... اسی وجہ سے جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے۔ اکٹھا کہنے سے منع کیا گیا تاکہ خالق و مخلوق کی مشیت میں خط امتیاز رہے۔ انہیں یکساں نہ سمجھ لیا جائے۔ اس سے عقیدت میں غلو اور مبالغہ پیدا ہوتا ہے۔ بطور خاص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسا کہنے سے منع کر دیاگیا، جیسا کہ حدیث میں ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بے شک ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جو اللہ چاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے مجھے اللہ کے برابر بنا دیا؟ بلکہ (کہو)جو اکیلا اللہ چاہے۔( مسند احمد : 1؍324، 283، 347، الأدب المفرد، بخاري : 783۔) دوسری حدیث میں ہے: قتیلہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بے شک ایک یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یقینا تم شرک کرتے ہو، تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں اور تم کہتے ہو، کعبے کی قسم! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ جب وہ (قسم اٹھانے کا)ارادہ کریں تو کہیں : کعبے کے رب کی قسم! اور وہ کہیں : جو اللہ چاہے، پھر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔(سنن نسائي : 7؍6، مشکل الآثار، طحاوي : 1؍357، مستدرك حاکم : 4؍297، سنن بیهقي: 3؍216، مسند أحمد : 6؍371، 372۔)
تخریج : مسند احمد (الفتح الرباني )1؍38۔ علامہ ساعاتی نے فرمایا کہ اسے طیالسی نے بیان کیا ہے اور اس کی سند جید ہے۔ (1).... اگرچہ بندے کی مشیت بھی ہے، لیکن وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے اور بندے کی اپنی چاہت پر کوئی قدرت نہیں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ چاہے۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ﴾ (التکویر : 29) ’’اور تم نہیں چاہتے الا یہ کہ اللہ چاہے جو سب جہانوں کا رب ہے۔‘‘ نیز ارشاد فرمایا: ﴿ وَمَا تَشَاءُونَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ (الدھر : 30) ’’اور تم نہیں چاہتے مگر یہ کہ اللہ چاہے، جو یقینا اللہ ہمیشہ سے سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ (2) .... عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے تقدیر کے منکروں کو اسی آیت سے لاجواب کیا تھا۔ خوراج کا ایک گروہ ان کے پاس آیا اور تقدیر کے انکار کی دلیل کے طور پر اسی سورت کی ابتداء میں یہ آیت پڑھی: ﴿ إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ﴾ (الدھر : 3) ’’یعنی ہم نے انسان کو راستہ بتا دیا ہے،اب چاہے تو شکر کرنے والا بن جائے، چاہے تو کفر کرنے والا۔‘‘ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے فرمایا؛ آگے پڑھتے جاؤ، آخر میں یہ آیت آئی تو فرمایا: بے شک انسان جو راستہ چاہے اختیار کرے، مگر یہ اختیار بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ اللہ تعالیٰ سے زبردست ہو کر کوئی شخص نہ نیک بن سکتا ہے نہ بد۔ ﴿ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا ﴾ (الدھر : 30) یعنی اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت اندھی مشیت نہیں ہے، بلکہ وہ علیم و حکیم ہے اور اس کی مشیت اس کے علم و حکمت پر مبنی ہے۔ وہ انہی لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو اس کے علم و حکمت کے مطابق اس کے اہل ہیں۔ ( تفسیر القرآن الکریم : 4؍882۔) (3) .... اسی وجہ سے جو اللہ چاہے اور فلاں چاہے۔ اکٹھا کہنے سے منع کیا گیا تاکہ خالق و مخلوق کی مشیت میں خط امتیاز رہے۔ انہیں یکساں نہ سمجھ لیا جائے۔ اس سے عقیدت میں غلو اور مبالغہ پیدا ہوتا ہے۔ بطور خاص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایسا کہنے سے منع کر دیاگیا، جیسا کہ حدیث میں ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ بے شک ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: جو اللہ چاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تو نے مجھے اللہ کے برابر بنا دیا؟ بلکہ (کہو)جو اکیلا اللہ چاہے۔( مسند احمد : 1؍324، 283، 347، الأدب المفرد، بخاري : 783۔) دوسری حدیث میں ہے: قتیلہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بے شک ایک یہودی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یقینا تم شرک کرتے ہو، تم کہتے ہو: جو اللہ چاہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں اور تم کہتے ہو، کعبے کی قسم! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ جب وہ (قسم اٹھانے کا)ارادہ کریں تو کہیں : کعبے کے رب کی قسم! اور وہ کہیں : جو اللہ چاہے، پھر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔(سنن نسائي : 7؍6، مشکل الآثار، طحاوي : 1؍357، مستدرك حاکم : 4؍297، سنن بیهقي: 3؍216، مسند أحمد : 6؍371، 372۔)