كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، أَنا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ((أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ اسْتَفْتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَذْرٍ كَانَ عَلَى أُمِّهِ، فَمَاتَتْ قَبْلَ أَنْ تَقضِيَهُ، فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَضَائِهِ))
کتاب
باب
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ بے شک سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نذر کے بارے فتویٰ طلب کیا جو ان کی ماں پر تھی اور وہ اسے پورا کرنے سے پہلے ہی فو ت ہو گئی تھیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسے پورا کرنے کا حکم دیا۔
تشریح :
(1).... جس شخص نے کوئی مالی نذر مانی اور اسے پورا کرنے سے پہلے فوت ہو گیا تو اسے اس کے راس المال سے پورا کیا جائے گا، اگرچہ اس نے وصیت نہ بھی کی ہو، ہاں اگر نذر مرض الموت میں مانی ہے تو ایک تہائی سے پوری کی جائے گی۔ جمہور اہل علماء کا یہی موقف ہے۔( عون المعبود : 9؍97۔)
(2) .... احناف کے نزدیک میت کے ذمے نذریں اور کفارے تب اداکیے جائیں گے، اگر اس نے وصیت کی ہو ورنہ نہیں۔( عون المعبود : 9؍97۔)
(3) .... جواز نہ کرنے سے جمہور کا موقف درست معلوم ہوتا ہے۔
تخریج :
صحیح البخاری،الأیمان والنذور : 29، باب من مات وعلیه نذر : 11؍494، صحیح مسلم، النذور : 11؍96، جامع ترمذي، الأیمان : 18، باب قضاء النذر عن المیت : 5؍150، سنن ابن ماجة: 2132، موطا، النذور والأیمان : 1، باب ما یجب من النذور : 3؍55، مسند طیالسي: 1؍248، مسند احمد : 1؍219، مجمع الزوائد : هیثمي : 4؍191۔
(1).... جس شخص نے کوئی مالی نذر مانی اور اسے پورا کرنے سے پہلے فوت ہو گیا تو اسے اس کے راس المال سے پورا کیا جائے گا، اگرچہ اس نے وصیت نہ بھی کی ہو، ہاں اگر نذر مرض الموت میں مانی ہے تو ایک تہائی سے پوری کی جائے گی۔ جمہور اہل علماء کا یہی موقف ہے۔( عون المعبود : 9؍97۔)
(2) .... احناف کے نزدیک میت کے ذمے نذریں اور کفارے تب اداکیے جائیں گے، اگر اس نے وصیت کی ہو ورنہ نہیں۔( عون المعبود : 9؍97۔)
(3) .... جواز نہ کرنے سے جمہور کا موقف درست معلوم ہوتا ہے۔