كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ [ص:11] أَبِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((كَفَى بِالْمَرْءِ جُرْمًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ))
کتاب
باب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کے مجرم ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات یبان کر دے۔‘‘
تشریح :
(1) .... انسان عادتاً سچ اور جھوٹ سب سنتا ہے۔ اگروہ ہر سنی چیز کو بیان کرنا شروع کر دے تو لازماً جھوٹ بھی بیان کرے گا، اس لیے ایسے شخص کو جھوٹا ہی کہا گیا ہے۔
(2) .... اگر یہ غیر محتاط رویہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہو تو معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔
(3) .... امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جان لو کہ جو آدمی ہر سنی بات بیان کر دے وہ کبھی (غلطی سے)محفوظ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی کبھی امام بن سکتا ہے، کیوں کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دیتا ہے۔( مقدمه صحیح مسلم : 10۔)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب وہ ہر سنی بات آگے بیان کرے گا تو اس کی روایت میں بہت زیادہ غلطیاں ہوں گی، اس طرح اس سے اعتماد اٹھ جائے گا اور لوگ اس سے روایت لینا چھوڑ دیں گے۔ (پھر وہ امام کیسے بنے گا؟) (شرح مسلم : 1؍9۔)
(4) .... سفیان بن حسین رحمہ اللہ نے کہا کہ ایاس بن معاویہ نے مجھ سے سوال کیا کہ میں تجھے دیکھتا ہوں کہ تو علم قرآن کا بڑا حریص ہے، تم کوئی سورت پڑھو تو اس کی تفسیر بیان کرو تاکہ میں اس چیز میں نظر کروں جو تو نے جانی ہے؟ کہا کہ میں نے ایسا کہا تو اس نے کہا، میں تجھے جو بتانے جا رہا ہوں اسے یاد کر لو، شناعت والی حدیث سے بچ کے رہنا، کیوں کہ جس نے بھی اسے اٹھایا وہ از خود ذلیل ہوا اور اس کی حدیث جھٹلائی گئی۔( مقدمه صحیح مسلم : 13۔)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ایاس بن معاویہ نے سفیان بن حسین کو منکر روایات بیان کرنے سے ڈرایا کہ جن سے روایت بیان کرنے والے پر قدغن لگائی جاتی اور اس کا انکار کیا جاتا ہے، پھر اس کو جھٹلایا جاتا ہے یا شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس طرح اس کا مقام و مرتبہ گر جاتا ہے اور وہ اپنے آپ میں ذلیل ہوجاتا ہے۔( شرح مسلم : 1؍9۔)
(5)عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’آدمی اس وقت تک امام، مقتدیٰ اور پیشوا نہیں بن سکتا، جب تک وہ سنی ہوئی بیان (جھوٹی روایات)سے رک نہ جائے۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم : 12۔)
تخریج :
الزهد، ابن مبارك : 255، مقدمة صحیح مسلم : 1؍73، 740 (5)، مستدرك حاکم : 1؍112، المقاصد الحسنة، سخاوي : 318، سنن أبي داؤد : 4992۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1) .... انسان عادتاً سچ اور جھوٹ سب سنتا ہے۔ اگروہ ہر سنی چیز کو بیان کرنا شروع کر دے تو لازماً جھوٹ بھی بیان کرے گا، اس لیے ایسے شخص کو جھوٹا ہی کہا گیا ہے۔
(2) .... اگر یہ غیر محتاط رویہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہو تو معاملہ اور بھی سنگین ہوجاتا ہے۔
(3) .... امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جان لو کہ جو آدمی ہر سنی بات بیان کر دے وہ کبھی (غلطی سے)محفوظ نہیں رہ سکتا اور نہ ہی کبھی امام بن سکتا ہے، کیوں کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کر دیتا ہے۔( مقدمه صحیح مسلم : 10۔)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب وہ ہر سنی بات آگے بیان کرے گا تو اس کی روایت میں بہت زیادہ غلطیاں ہوں گی، اس طرح اس سے اعتماد اٹھ جائے گا اور لوگ اس سے روایت لینا چھوڑ دیں گے۔ (پھر وہ امام کیسے بنے گا؟) (شرح مسلم : 1؍9۔)
(4) .... سفیان بن حسین رحمہ اللہ نے کہا کہ ایاس بن معاویہ نے مجھ سے سوال کیا کہ میں تجھے دیکھتا ہوں کہ تو علم قرآن کا بڑا حریص ہے، تم کوئی سورت پڑھو تو اس کی تفسیر بیان کرو تاکہ میں اس چیز میں نظر کروں جو تو نے جانی ہے؟ کہا کہ میں نے ایسا کہا تو اس نے کہا، میں تجھے جو بتانے جا رہا ہوں اسے یاد کر لو، شناعت والی حدیث سے بچ کے رہنا، کیوں کہ جس نے بھی اسے اٹھایا وہ از خود ذلیل ہوا اور اس کی حدیث جھٹلائی گئی۔( مقدمه صحیح مسلم : 13۔)
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ایاس بن معاویہ نے سفیان بن حسین کو منکر روایات بیان کرنے سے ڈرایا کہ جن سے روایت بیان کرنے والے پر قدغن لگائی جاتی اور اس کا انکار کیا جاتا ہے، پھر اس کو جھٹلایا جاتا ہے یا شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس طرح اس کا مقام و مرتبہ گر جاتا ہے اور وہ اپنے آپ میں ذلیل ہوجاتا ہے۔( شرح مسلم : 1؍9۔)
(5)عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’آدمی اس وقت تک امام، مقتدیٰ اور پیشوا نہیں بن سکتا، جب تک وہ سنی ہوئی بیان (جھوٹی روایات)سے رک نہ جائے۔‘‘ (مقدمہ صحیح مسلم : 12۔)