كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، أَنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي نَذَرْتُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ أَعْتَكِفَ لَيْلَةً فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((أَوْفِ بِنَذْرِكَ))
کتاب
باب
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بے شک میں نے جاہلیت میں نذر مانی تھی کہ ایک رات مسجد حرام میں اعتکاف بیٹھوں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنی نذر پوری کر۔‘‘
تشریح :
(1).... نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمر رضی اللہ عنہ کو نذر پوری کرنے کی اجازت دینا اس امر کی دلیل ہے کہ کافر کی نذر جو اس نے حالت کفر میں مانی تھی، اسلام لانے کے بعد پورا کرنا ضروری ہے، بہ شرط کہ نیکی کی نذر ہو۔
(2) .... دوسری حدیث میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دن کے اعتکاف کی نذر مانی تھی۔ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں، کیوں کہ ’’یوم‘‘ کا لفظ مطلق زمانے کے لیے آتا ہے، چاہے وہ دن ہو یا رات ہو، یا مطلب ہے کہ دن اور رات دونوں کے اعتکاف کی نذر مانی تھی، لیکن سوال کرتے وقت انہوں نے صرف ایک کے ذکر پر اکتفا کیا۔ لہٰذا دن والی روایت کا مطلب ہے کہ رات سمیت، اور رات والی روایت کا مطلب ہے دن سمیت۔( عون المعبود : 9؍111۔)
تخریج :
صحیح بخاري، الأیمان والنذور : 28، باب إذا نذر أن لا یکلم إنسانًا فی الجاهلیة ثم أسلم : 11؍493، الصوم، باب من لم یر علیه إذا اعتکف صوما : 4؍228، صحیح مسلم : الأیمان : 11؍124، 125، 126، رقم : 27، 28، 29، جامع ترمذي، النذور والأیمان : 11، باب وفاء النذر : 5؍141، سنن ابي داؤد، النذور : 36، باب نذر الجاهلیة ثم أدرك الإسلام : 9؍154، سنن ابن ماجة: 2129، سنن دارمي، النذور : 1، باب الوفاء بالنذر : 2؍104، مسند طیالسي : (الفتح الرباني )14؍182، سنن بیهقي، النذور، باب ما یوفي به من نذور الجاهلیة : 10؍76۔
(1).... نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمر رضی اللہ عنہ کو نذر پوری کرنے کی اجازت دینا اس امر کی دلیل ہے کہ کافر کی نذر جو اس نے حالت کفر میں مانی تھی، اسلام لانے کے بعد پورا کرنا ضروری ہے، بہ شرط کہ نیکی کی نذر ہو۔
(2) .... دوسری حدیث میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے دن کے اعتکاف کی نذر مانی تھی۔ ان دونوں میں کوئی تعارض نہیں، کیوں کہ ’’یوم‘‘ کا لفظ مطلق زمانے کے لیے آتا ہے، چاہے وہ دن ہو یا رات ہو، یا مطلب ہے کہ دن اور رات دونوں کے اعتکاف کی نذر مانی تھی، لیکن سوال کرتے وقت انہوں نے صرف ایک کے ذکر پر اکتفا کیا۔ لہٰذا دن والی روایت کا مطلب ہے کہ رات سمیت، اور رات والی روایت کا مطلب ہے دن سمیت۔( عون المعبود : 9؍111۔)