مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 188

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، أَنا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ((لَا نَذْرَ فِي مَعْصِيَةٍ، وَكفَّارَتُهُ كَفَّارَةُ يَمِينٍ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 188

کتاب باب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نافرمانی (کے کام میں )نذر نہیں ہے اور اس کا کفارہ، قسم والا کفارہ ہے۔‘‘
تشریح : (1).... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے کسی نافرمانی کی نذر مانی جیسا کہ شراب پینا، تو اس کی نذر باطل ہے، منعقد نہیں ہوگی اور نہ ہی اسے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا اور نہ اس کے علاوہ کچھ اور اور یہی بات امام مالک رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ اور جمہور علماء کی ہے۔( عون المعبود : 9؍83۔) (2)سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو دھوپ میں کھڑا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا کہ یہ ابواسرائیل ہے، اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا، بیٹھے گانہیں، نہ سایہ حاصل کرے گا، نہ گفتگو کرے گا اور روزہ رکھے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے حکم دو کہ گفتگو کرے، سایہ حاصل کرے، بیٹھ جائے اور اپنا روزہ پورا کرے۔( سنن ابي داؤد مع عون المعبود : 9؍81، رقم (3280)۔) چونکہ ابواسرائیل کی نذر میں معصیت اور طاعت دونوں قسم کی چیزیں تھیں، جو معصیت تھیں، لہٰذا ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور کفارے کا نہیں فرمایا اور جو اطاعت کی تھی، یعنی روزہ تو اسے پورا کرنے کا حکم دیا۔ اس حدیث سے بھی پتہ چلا کہ معصیت کی نذر پوری نہیں کرنی اور اس میں کفارہ بھی نہیں ہے۔ واللہ اعلم
تخریج : جامع ترمذي: الأیمان والنذور : 1، باب ما جاء عن النبی صلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ أن لا نذر فی معصیة : 5؍121، 122، 123، سنن ابوي داود، الأیمان : 19، باب من رأي علیه کفارة إذا کان فی معصیة : 3291، سنن ابن ماجة، الکفارات: 16، باب النذر فی المعصیة رقم : 2125، مسند طیالسي : 1؍248، معاني الآثار، طحاوی : 3؍133، مشکل الآثار، طحاوي : 3؍37، تاریخ بغداد : 5؍127۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ (1).... امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ جس نے کسی نافرمانی کی نذر مانی جیسا کہ شراب پینا، تو اس کی نذر باطل ہے، منعقد نہیں ہوگی اور نہ ہی اسے قسم کا کفارہ دینا پڑے گا اور نہ اس کے علاوہ کچھ اور اور یہی بات امام مالک رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ اور جمہور علماء کی ہے۔( عون المعبود : 9؍83۔) (2)سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو دھوپ میں کھڑا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں پوچھا: انہوں نے کہا کہ یہ ابواسرائیل ہے، اس نے نذر مانی ہے کہ وہ کھڑا رہے گا، بیٹھے گانہیں، نہ سایہ حاصل کرے گا، نہ گفتگو کرے گا اور روزہ رکھے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے حکم دو کہ گفتگو کرے، سایہ حاصل کرے، بیٹھ جائے اور اپنا روزہ پورا کرے۔( سنن ابي داؤد مع عون المعبود : 9؍81، رقم (3280)۔) چونکہ ابواسرائیل کی نذر میں معصیت اور طاعت دونوں قسم کی چیزیں تھیں، جو معصیت تھیں، لہٰذا ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور کفارے کا نہیں فرمایا اور جو اطاعت کی تھی، یعنی روزہ تو اسے پورا کرنے کا حکم دیا۔ اس حدیث سے بھی پتہ چلا کہ معصیت کی نذر پوری نہیں کرنی اور اس میں کفارہ بھی نہیں ہے۔ واللہ اعلم