مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 182

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ بْنُ مُوسَى، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، أَنا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَنْ حَلَفَ بِغَيْرِ اللَّهِ، قَالَ فِيهِ قَوْلًا شَدِيدًا))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 182

کتاب باب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بہت سخت بات کہی۔
تشریح : امام ترمذی نے کہا کہ بعض اہل علم کے نزدیک اس کی تفسیریہ ہے کہ اسے سختی پر محمول کیا جائے گا اور اس بارے حجت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ کہہ رہے تھے: ’’مجھے میرے باپ کی قسم، مجھے میرے باپ کی قسم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تم کو منع کرتاہے کہ تم اپنے آباء کی قسمیں اٹھاؤ۔‘‘ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ جس نے اپنی قسم میں کہا: لات کی قسم، عزیٰ کی قسم تو وہ لا إله إلا اللّٰه کہے اور یہ اسی کی مثال ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ریا شرک ہے۔‘‘ اور بعض اہل علم نے اس آیت کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ ﴿ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا﴾(الكهف : 110) ’’سو جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ عمل کرے، نیک عمل۔‘‘ کہا کہ ’’وہ ریاکاری نہ کرے۔‘‘( جامع ترمذي مع تحفة الأحوذي : 2؍371۔) یعنی محض غیر اللہ کی قسم اٹھانے سے کفر یا شرک لازم نہیں آجاتا، بلکہ یہ الفاظ بہ طور شدت اور معاملے کی سنگینی بیان کرنے کے لیے بولے ہیں۔ واللہ اعلم
تخریج : جامع ترمذی، النذور والأیمان : 8، باب منه : 50؍35، سنن ابي داؤد، الأیمان : 5، باب کراهیة الحلف بالآباء : 9؍78، مستدرك حاکم،الأیمان : 1؍18، 52، 4؍297، مسند أحمد : 2؍34، 67، سنن بیهقي: 10؍29۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ امام ترمذی نے کہا کہ بعض اہل علم کے نزدیک اس کی تفسیریہ ہے کہ اسے سختی پر محمول کیا جائے گا اور اس بارے حجت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ کہہ رہے تھے: ’’مجھے میرے باپ کی قسم، مجھے میرے باپ کی قسم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تم کو منع کرتاہے کہ تم اپنے آباء کی قسمیں اٹھاؤ۔‘‘ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ جس نے اپنی قسم میں کہا: لات کی قسم، عزیٰ کی قسم تو وہ لا إله إلا اللّٰه کہے اور یہ اسی کی مثال ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ریا شرک ہے۔‘‘ اور بعض اہل علم نے اس آیت کی یہ تفسیر بیان کی ہے کہ ﴿ فَمَنْ كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا﴾(الكهف : 110) ’’سو جو شخص اپنے رب کی ملاقات کی امید رکھتا ہو تو لازم ہے کہ وہ عمل کرے، نیک عمل۔‘‘ کہا کہ ’’وہ ریاکاری نہ کرے۔‘‘( جامع ترمذي مع تحفة الأحوذي : 2؍371۔) یعنی محض غیر اللہ کی قسم اٹھانے سے کفر یا شرک لازم نہیں آجاتا، بلکہ یہ الفاظ بہ طور شدت اور معاملے کی سنگینی بیان کرنے کے لیے بولے ہیں۔ واللہ اعلم