مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 178

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنِي جَدِّي، أَنا إِبْرَاهِيمُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ نَا يَعْقُوبُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ طَحْلَاءَ، أَخْبَرَنِي خَالِدُ بْنُ أَبِي حَيَّانَ، قَالَ: كَانَتِ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي دِينَارٍ أَعْتَقَتْنِي فَتَزَوَّجَتْ فِي بَنِي سَلِمَةَ فَوَلَدَتْ فِيهِمْ، ثُمَّ مَاتَتْ، فَدَخَلْتُ عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، هَذَا سُئِلَ مِنْ وَلَائِكَ، فَقُلْتُ: مَعَاذَ اللَّهِ، أَنَا مَوْلَى فُلَانَةَ مِنْ بَنِي الدِّينَارِ، فَقَالَ جَابِرٌ: أَجَلْ يَا ابْنَ أُخْتِي، فَإِنِّي أَشْهَدُ لَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: ((مَنْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ خَلَعَ رِبْقَةَ الْإِيمَانِ مِنْ عُنُقِهِ))، وَيَقُولُ بِيَدِهِ هَكَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 178

کتاب باب خالد بن ابی حیان نے کہا کہ بنی دینار کی ایک عورت تھی جس نے مجھے آزاد کر دیا تھا، پھر اس نے بنی سلمہ میں شادی کر لی اور ان میں سے اس نے اولاد پیدا کی، پھر وہ (آزاد کرنے والی)فوت ہو گئی، میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما پر داخل ہوا تو بعض لوگوں نے کہا کہ اے ابو عبداللہ! یہ آپ رضی اللہ عنہ کے ’’ولاء‘‘ سے سوال کرنے والا ہے۔ میں نے کہا کہ اللہ کی پناہ! میں فلاں دیناریہ عورت کا آزادہ کردہ ہوں توجابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں اے میری بہن کے بیٹے! بے شک میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا: جس نے اپنے مالکوں کے سوا کسی اور کو مالک بنایا، اس نے اپنی گردن سے ایمان کا پھندا اتار دیا اور وہ ا پنے ہاتھ کے ساتھ اس طرح تین بار اشارہ کر رہے تھے۔
تشریح : (1).... جس طرح اپنے باپ کے علاوہ کسی اور طرف نسبت کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اسی طرح کوئی غلام اپنے سادات کے بجائے کسی اور کو آقا کہے یا باور کروائے یہ بھی سخت منع ہے۔ (2) .... آزاد کرنے والے مرد یا عورت کاکوئی وارث نہ ہو تو آزاد کردہ غلام کو وراثت مل جائے گی۔ جب خالد بن ابی حیان اپنی آزاد کرنے والی عورت کی وفات کے بعد سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو لوگوں نے اس پر اتہام لگایا جس پر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اس کو اتہام سے بری قرار دیا اور ساتھ حدیث پاک بیان کر دی۔ آزاد کردہ غلام کی وراثت کے بارے حدیث ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک آدمی فوت ہوا اور اس نے کوئی اپنا وارث نہیں چھوڑا، سوائے ایک غلام کے جسے اس نے آزاد کیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وراثت اس کو دے دی۔( سنن ابن ماجة: 2741۔)
تخریج : مسند أحمد : 3؍332، رقم : 14562۔ شیخ شعیب نے اس کی سند کو ’’جید‘‘ قرار دیا ہے۔ (1).... جس طرح اپنے باپ کے علاوہ کسی اور طرف نسبت کرنا قطعاً جائز نہیں۔ اسی طرح کوئی غلام اپنے سادات کے بجائے کسی اور کو آقا کہے یا باور کروائے یہ بھی سخت منع ہے۔ (2) .... آزاد کرنے والے مرد یا عورت کاکوئی وارث نہ ہو تو آزاد کردہ غلام کو وراثت مل جائے گی۔ جب خالد بن ابی حیان اپنی آزاد کرنے والی عورت کی وفات کے بعد سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو لوگوں نے اس پر اتہام لگایا جس پر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے اس کو اتہام سے بری قرار دیا اور ساتھ حدیث پاک بیان کر دی۔ آزاد کردہ غلام کی وراثت کے بارے حدیث ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک آدمی فوت ہوا اور اس نے کوئی اپنا وارث نہیں چھوڑا، سوائے ایک غلام کے جسے اس نے آزاد کیا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وراثت اس کو دے دی۔( سنن ابن ماجة: 2741۔)