كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا إِبْرَاهِيمُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ أَنا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ، عَنْ مُجَاهِدِ بْنِ وَرْدَانَ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ مَولًى لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَعَ مِنْ عَذْقِ نَخْلَةٍ فَمَاتَ وَتَرَكَ شَيْئًا، فَقِيلَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ((هَلْ لَهُ مِنْ وَلَدٍ أَوْ حَمِيمٍ؟)) قَالُوا: لَا. قَالَ: ((فَانْظُرُوا بَعْضَ أَهْلِ قَرَيْتِهِ، فَادْفَعُوهُ إِلَيْهِ))
کتاب
باب
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا آزاد کردہ غلام کھجور خرما کی شاخیں کاٹ رہا تھا کہ گر کر مر گیا اور کچھ وراثت چھوڑ گیا، یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا اس کی کوئی اولاد یا دوست ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے بعض بستی والے کو دیکھو اور اس (مال)کو اس کے سپرد کردو۔
تشریح :
(1).... اس حدیث میں ’’ولاء‘‘ کی وراثت بیان ہوئی ہے۔ ’’ولاء‘‘ کہتے ہیں جس نے کسی غلام کو آزاد کیا ہو، آزادکرنے والا مرد ہو یا عورت، یہ اس غلام کے وراث بنتے ہیں، اسے عصبہ سببی بھی کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ)) (صحیح بخاري: 2؍999، صحیح مسلم: 1؍494۔) ’’ولاء اس کا ہے جس نے آزاد کیا۔‘‘
(2) .... وراثت کے حصص میں وارثوں کی ترتیب حسب ذیل ہوگی، سب سے پہلے اصحاب الفرائض، پھر عصبہ، نسبی، پھر عصبہ سببی، پھر اصحاب الفرائض، نسبیہ پر رد ہوگا۔پھر ذوی الارحام، پھر جس کے لیے میت نے جمیع مال کی وصیت کی ہو اور پھر بیت المال۔ (فقه المواریت : ص 15، 16۔)
نوٹ: .... یاد رہے کہ فی زمانہ ’’ولاء‘‘ نہیں پایا جاتا۔
تخریج :
سنن ابن ماجة، الفرائض، باب میراث الولاء رقم : 2733، مسند طیالسي: 1؍285، مشکل الآثار طحاوي : 1؍426، 427۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
(1).... اس حدیث میں ’’ولاء‘‘ کی وراثت بیان ہوئی ہے۔ ’’ولاء‘‘ کہتے ہیں جس نے کسی غلام کو آزاد کیا ہو، آزادکرنے والا مرد ہو یا عورت، یہ اس غلام کے وراث بنتے ہیں، اسے عصبہ سببی بھی کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ)) (صحیح بخاري: 2؍999، صحیح مسلم: 1؍494۔) ’’ولاء اس کا ہے جس نے آزاد کیا۔‘‘
(2) .... وراثت کے حصص میں وارثوں کی ترتیب حسب ذیل ہوگی، سب سے پہلے اصحاب الفرائض، پھر عصبہ، نسبی، پھر عصبہ سببی، پھر اصحاب الفرائض، نسبیہ پر رد ہوگا۔پھر ذوی الارحام، پھر جس کے لیے میت نے جمیع مال کی وصیت کی ہو اور پھر بیت المال۔ (فقه المواریت : ص 15، 16۔)
نوٹ: .... یاد رہے کہ فی زمانہ ’’ولاء‘‘ نہیں پایا جاتا۔