كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا إِبْرَاهِيمُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: ((قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالدَّيْنِ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ، وَأَنْتُمْ تَقْرَءُونَ: ﴿مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾ [النِّسَاء: 12]، وَإِنَّ أَعْيَانَ بَنِي الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ، يَعْنِي الْإِخْوَةَ لِلْأَبِ وَالْأُمِّ دُونَ الْإِخْوَةِ لِلْأَبِ))
کتاب
باب
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت سے پہلے قرض ادا کیا، حالاں کہ تم پڑھتے ہو، ﴿ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾ (النساء : 12)’’اس وصیت کے بعد جو وہ کر جائے، یا قرض (کے بعد(۔‘‘ اور بے شک عینی بھائی ایک دوسرے کے وارث بنتے ہیں نہ کہ علاتی بھائی۔ یعنی باپ اورماں کی طرف سے بھائی نہ کہ صرف باپ کی طرف سے بھائی۔
تشریح :
(1).... میت کے مال سے اول کفن دفن پر صرف کیا جائے، پھر باقی ماندہ سے حسب مراتب قرض ادا کیا جائے، سب سے زیادہ ادا کیے جانے کا حق دار اللہ تعالیٰ کا قرض ہے، مثلاً اگر زکوٰۃ یا حج اس کے ذمے ہے تو وہ ادا کیا جائے، پھر دوسرے قرض ادا کیے جائیں،پھر مال کے تہائی حصے سے وصیت پوری کی جائے، اس کے بعد وارثوں کے درمیان باقی ترکے کے حصے کیے جائیں۔ (قرطبی)
(2) .... قرآن میں گو قرض کا ذکر وصیت کے بعد ہے، مگر سلف و خلف کا اس پر اجماع ہے کہ ادائے قرض وصیت پر مقدم ہے، لہٰذا پہلے قرض ادا کیا جائے، پھر وصیت کا نفاذ ہونا چاہیے۔ غور سے دیکھیں تو آیت کے معنی و مفہوم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ آیت میں وصیت کو قرض سے پہلے ذکر کرنے کی اہل علم نے کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ عام طور پر وصیت پر عمل میں کوتاہی کی جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تاکید کے لیے اسے پہلے ذکر فرمایا۔
(3) .... بہن، بھائی تین طرح کے ہوتے ہیں۔ (1)عینی، یعنی جن کے ماں باپ ایک ہوں۔ (2)علاتی، یعنی جن کا باپ ایک ہو، مائیں مختلف ہوں۔ (3)اخیافی، جن کی ماں ایک ہو اور باپ مختلف ہوں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عینی بھائیوں کی موجودگی میں علاتی محروم ہوں گے۔
تخریج :
سنن ابن ماجة، الوصایا : 7، باب الدین قبل الوصیة رقم : 2715، سنن ترمذي: 2094، مسند الطیالسي : 1؍272، مستدرك حاکم : 4؍336۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
(1).... میت کے مال سے اول کفن دفن پر صرف کیا جائے، پھر باقی ماندہ سے حسب مراتب قرض ادا کیا جائے، سب سے زیادہ ادا کیے جانے کا حق دار اللہ تعالیٰ کا قرض ہے، مثلاً اگر زکوٰۃ یا حج اس کے ذمے ہے تو وہ ادا کیا جائے، پھر دوسرے قرض ادا کیے جائیں،پھر مال کے تہائی حصے سے وصیت پوری کی جائے، اس کے بعد وارثوں کے درمیان باقی ترکے کے حصے کیے جائیں۔ (قرطبی)
(2) .... قرآن میں گو قرض کا ذکر وصیت کے بعد ہے، مگر سلف و خلف کا اس پر اجماع ہے کہ ادائے قرض وصیت پر مقدم ہے، لہٰذا پہلے قرض ادا کیا جائے، پھر وصیت کا نفاذ ہونا چاہیے۔ غور سے دیکھیں تو آیت کے معنی و مفہوم سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔ آیت میں وصیت کو قرض سے پہلے ذکر کرنے کی اہل علم نے کئی حکمتیں بیان فرمائی ہیں۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ عام طور پر وصیت پر عمل میں کوتاہی کی جاتی ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تاکید کے لیے اسے پہلے ذکر فرمایا۔
(3) .... بہن، بھائی تین طرح کے ہوتے ہیں۔ (1)عینی، یعنی جن کے ماں باپ ایک ہوں۔ (2)علاتی، یعنی جن کا باپ ایک ہو، مائیں مختلف ہوں۔ (3)اخیافی، جن کی ماں ایک ہو اور باپ مختلف ہوں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عینی بھائیوں کی موجودگی میں علاتی محروم ہوں گے۔