مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 17

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((وَيْلٌ لِمَنْ يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ، وَيْلٌ لَهُ، وَيْلٌ لَهُ، وَيْلٌ لَهُ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 17

کتاب باب بہز اپنے باپ حکیم سے اور وہ اپنے دادا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جوبات کرتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے، تاکہ اس کے ساتھ لوگوں کو ہنسائے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔‘‘
تشریح : (1) .... اس حدیث میں جھوٹ کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ اہل ہوس کی بات ہے اور اکثر شوبز سے تعلق رکھنے والے فنکار، اداکار اور ان کے پرستار یہ سوچ رکھتے ہیں۔ لوگوں کو خوش کرنا، ان کے دلوں سے غم دور کرنا، پریشان حالوں کو ان کے دکھ بھلا دینا اور ان کے لیے تفریح کا سامان مہیا کرنا، یہ عبادت ہے، اس کے لیے کچھ بھی کیا اور کہا جا سکتا ہے، بلکہ اس بارے میں کئی خود ساختہ اور من گھڑت روایات بھی بیان کرتے ہیں۔ العیاذ باللّٰه کیا سچ کے اندر ہنسی نہیں ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم نہ کرتے تھے؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسکراتے نہ تھے؟ کتاب و سنت اور تاریخ اسلام میں صداقت پرمبنی کتنے ہی واقعات ہیں کہ جن سے دلوں کو راحت ملتی، دکھوں کا مداوا ہوتا، رنج و غم دھلتے، سینے مسرتوں سے معمور، آنکھیں نشاط سے سرشار اور بدن کا رواں رواں سرور و بہجت سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔ (2) .... کچھ لوگ شہرت و ناموری کے لیے جھوٹا خواب بیان کرتے ہیں۔ حدیث پاک میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے ایسا خواب بیان کیا جو اس نے نہیں دیکھا تو اسے (قیامت والے دن(مجبور کیا جائے گا کہ وہ جو کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگائے اور وہ یہ ہرگز نہیں کرسکے گا۔‘‘ (صحیح بخاري: 7042۔) (3) .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طویل خواب بیان فرمایا، جس میں جھوٹے شخص کی سزا یوں بیان فرمائی: ’’اور وہ آدمی جس کے پاس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو اس کے جبڑے، نتھنے اور آنکھ کواس کی گدی تک چیرا جا رہا تھا۔ یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے جو (دنیا کے)کناروں تک پھیل جاتا ہے۔‘‘( صحیح بخاري: 7067۔)
تخریج : سنن ترمذي: 2315، سنن دارمي: 2؍206، الزهد، ابن مبارك : 254، مسند احمد : 5؍3، تاریخ بغداد : 3؍265، 4؍4، 7؍134۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔ (1) .... اس حدیث میں جھوٹ کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ اہل ہوس کی بات ہے اور اکثر شوبز سے تعلق رکھنے والے فنکار، اداکار اور ان کے پرستار یہ سوچ رکھتے ہیں۔ لوگوں کو خوش کرنا، ان کے دلوں سے غم دور کرنا، پریشان حالوں کو ان کے دکھ بھلا دینا اور ان کے لیے تفریح کا سامان مہیا کرنا، یہ عبادت ہے، اس کے لیے کچھ بھی کیا اور کہا جا سکتا ہے، بلکہ اس بارے میں کئی خود ساختہ اور من گھڑت روایات بھی بیان کرتے ہیں۔ العیاذ باللّٰه کیا سچ کے اندر ہنسی نہیں ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبسم نہ کرتے تھے؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسکراتے نہ تھے؟ کتاب و سنت اور تاریخ اسلام میں صداقت پرمبنی کتنے ہی واقعات ہیں کہ جن سے دلوں کو راحت ملتی، دکھوں کا مداوا ہوتا، رنج و غم دھلتے، سینے مسرتوں سے معمور، آنکھیں نشاط سے سرشار اور بدن کا رواں رواں سرور و بہجت سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔ (2) .... کچھ لوگ شہرت و ناموری کے لیے جھوٹا خواب بیان کرتے ہیں۔ حدیث پاک میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے ایسا خواب بیان کیا جو اس نے نہیں دیکھا تو اسے (قیامت والے دن(مجبور کیا جائے گا کہ وہ جو کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگائے اور وہ یہ ہرگز نہیں کرسکے گا۔‘‘ (صحیح بخاري: 7042۔) (3) .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طویل خواب بیان فرمایا، جس میں جھوٹے شخص کی سزا یوں بیان فرمائی: ’’اور وہ آدمی جس کے پاس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم گزرے تو اس کے جبڑے، نتھنے اور آنکھ کواس کی گدی تک چیرا جا رہا تھا۔ یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے نکلتا ہے اور جھوٹ بولتا ہے جو (دنیا کے)کناروں تک پھیل جاتا ہے۔‘‘( صحیح بخاري: 7067۔)