كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، وَمَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ((قَطَعَ فِي مِجَنٍّ ثَمَنُهُ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ))
کتاب
باب
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال میں ہاتھ کاٹا، جس کی قیمت تین درہم تھی۔
تشریح :
(1).... اس حدیث میں چوری کا نصاب تین درہم بیان ہوا ہے اور یہ ربع دینار (دینار کے چوتھائی حصے)کے موافق ہے۔ اس زمانے میں سونے کے دینار کا چوتھائی حصہ چاندی کے تین درہم کے برابر ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بارہ درہموں کا تبادلہ ایک دینار سے ہوتا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے چاندی والوں پر دیت بارہ ہزار درہم اور سونے والوں پر ایک دینار فرض کی تھی۔ اس سے بھی پتہ چلا کہ ایک دینار، بارہ درہموں کے برابر ہوتا ہے۔ (نیز دیکھیں عون المعبود : 12؍34)
(2) .... جن حضرات نے چوری کا نصاب دس دراہم قرار دیا ہے۔ وہ صحیح نہیں ہے، کیوں کہ یہ ضعیف احادیث کی بنیاد پر ہے اور اس کے مقابلے میں صحیح احادیث میں ربع دینار آیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس حدیث میں ہے کہ ڈھال کی قیمت دس دراہم تھی۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ چوری کا نصاب بھی یہی ہے۔ بلکہ نصاب تو ربع دینار (تین دراہم)ہی ہے اور اگر کوئی اس سے قیمتی چیز کی چوری کرے گا، جیسا کہ دس دراہم وغیرہ تو اس کا ہاتھ بالاولیٰ کاٹا جائے گا۔
(3) .... واضح رہے کہ چیزوں کی قیمتیں مقرر کرنے کے لحاظ سے اصل چیز سونا ہے، کیوں کہ زمین کے تمام جواہرات میں اصل یہ ہے۔ لہٰذا اگر چاندی کی قیمت میں تفاوت آگیا ہے جیسا کہ فی زمانہ ایسا ہی ہے اور تین درہم دینار کے چوتھائی کے برابر نہیں رہے، بلکہ گر گئے ہیں تو تین درہم پر ہاتھ نہیں کٹے گا۔( عون المعبود : 12؍34۔)
تخریج :
صحیح بخاري، الحدود : 13، باب قول اللّٰه تعالیٰ: ﴿وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَهُمَا﴾ (المائدہ : 38(۔ 12؍87، صحیح مسلم : 11؍184،185، کتاب الحدود رقم : 6، سنن ابن ماجة: 2584، سن ترمذی، الحدود : 16، باب فی کم یقطع السارق : 5؍4، سنن ابي داؤد، الحدود : 11، باب ما یقطع فیه السارق : 12؍51، موطا: 4؍153، مسند احمد (الفتح الرباني )16؍110، سنن دارمي: 1؍301، سنن الکبریٰ بیهقي: 8؍256۔
(1).... اس حدیث میں چوری کا نصاب تین درہم بیان ہوا ہے اور یہ ربع دینار (دینار کے چوتھائی حصے)کے موافق ہے۔ اس زمانے میں سونے کے دینار کا چوتھائی حصہ چاندی کے تین درہم کے برابر ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں بارہ درہموں کا تبادلہ ایک دینار سے ہوتا تھا اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے چاندی والوں پر دیت بارہ ہزار درہم اور سونے والوں پر ایک دینار فرض کی تھی۔ اس سے بھی پتہ چلا کہ ایک دینار، بارہ درہموں کے برابر ہوتا ہے۔ (نیز دیکھیں عون المعبود : 12؍34)
(2) .... جن حضرات نے چوری کا نصاب دس دراہم قرار دیا ہے۔ وہ صحیح نہیں ہے، کیوں کہ یہ ضعیف احادیث کی بنیاد پر ہے اور اس کے مقابلے میں صحیح احادیث میں ربع دینار آیا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس حدیث میں ہے کہ ڈھال کی قیمت دس دراہم تھی۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ چوری کا نصاب بھی یہی ہے۔ بلکہ نصاب تو ربع دینار (تین دراہم)ہی ہے اور اگر کوئی اس سے قیمتی چیز کی چوری کرے گا، جیسا کہ دس دراہم وغیرہ تو اس کا ہاتھ بالاولیٰ کاٹا جائے گا۔
(3) .... واضح رہے کہ چیزوں کی قیمتیں مقرر کرنے کے لحاظ سے اصل چیز سونا ہے، کیوں کہ زمین کے تمام جواہرات میں اصل یہ ہے۔ لہٰذا اگر چاندی کی قیمت میں تفاوت آگیا ہے جیسا کہ فی زمانہ ایسا ہی ہے اور تین درہم دینار کے چوتھائی کے برابر نہیں رہے، بلکہ گر گئے ہیں تو تین درہم پر ہاتھ نہیں کٹے گا۔( عون المعبود : 12؍34۔)