مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 159

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، ((أَنَّ رَجُلًا مُوَلَّدًا أَطْلَسَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ كَانَ لَزِمَ أَبَا بَكْرٍ فِي خِلَافَتِهِ فَلَطَفَ بِهِ، حَتَّى بَعَثَ أَبُو بَكْرٍ مُصَّدِّقًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَبَعَثَهُ مَعَهُ وَأَوْصَى بِهِ فَلَبِثَ قَرِيبًا مِنْ شَهْرَيْنِ، ثُمَّ جَاءَ يُوضَعُ بَعِيرُهُ قَدْ قَطَعَ الْمُصَّدِّقُ يَدَهُ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ فَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَقَالَ: وَيْلَكَ مَا لَكَ؟ فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ وَجَدَنِي فَرِيضَةً فَقَطَعَ فِيهَا يَدِي. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَاتَلَ اللَّهُ هَذَا الَّذِي قَطَعَ يَدَكَ فِي فَرِيضَةِ جَنْبِهَا، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ كَوَّنَ أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ فَرِيضَةً، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، إِنْ كُنْتَ صَادِقًا لْأَقِيدَنَّكَ مِنْهُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَبِثَ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ بِمَنْزِلَتِهِ الَّتِي كَانَ بِهَا قَبْلَ أَنْ تُقْطَعَ يَدُهُ فَيَقُومُ فَيُصلِّي مِنَ اللَّيْلِ فَيَتَعَارُّ أَبُو بَكْرٍ عَنْ فِرَاشِهِ فَإِذَا سَمِعَ قِرَاءَتَهُ فَاضَتْ عَيْنَاهُ، وَقَالَ: قَطَعَ اللَّهُ الَّذِي قَطَعَ هَذَا. قَالَ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ، طَرَقَ حُلِيُّ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ فَسُرِقَ مِنْهَا، فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الصُّبْحَ قَامَ فِي النَّاسِ، فَقَالَ: إِنَّ الْحَيَّ قَدْ طَرَقُوا اللَّيْلَةَ فَسَرَقُوا فَأَنْفَضُّوا لِاتِّبَاعِ مَتَاعِهِمْ، قَالَتْ: فَاسْتَأْذَنَ عَلَيْنَا ذَلِكَ الْأَقْطَعُ، فَأَذِنَ لَهُ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا جَالِسَةٌ فِي الْحِجَابِ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، سُرِقْتُمُ اللَّيْلَ؟ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: نَعَمْ. فَرَفَعَ يَدَهُ الصَّحِيحَةَ وَيَدَهُ الْجَذْمَاءَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ عُثِرَ عَلَى سَارِقِ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ: فَوَاللَّهِ مَا ارْتَفَعَ النَّهَارُ حَتَّى أُخِذَتِ السَّرِقَةُ مِنْ بَيْتِهِ، فَأُتِيَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ: وَيْحَكَ، وَاللَّهِ، مَا أَنْتَ بِاللَّهِ بِعَالِمٍ اذْهَبُوا فَاقْطَعُوا أَرْجُلَهُ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 159

کتاب باب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ بے شک کداء (نامی جگہ)کا ایک آدمی جس پر اہل مکہ کی طرف سے چوری کی تہمت تھی، وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے دور خلافت میں آگیا، انہوں نے اس کے ساتھ شفقت کی، یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انصار میں سے ایک زکوٰۃ وصول کرنے والا بھیجا تو اس کو بھی اس کے ساتھ روانہ کر دیا اور اسے دو مہینوں کے قریب اس پر مہربان بنائے رکھا، پھر وہ آیا تو اس کا اونٹ بٹھایا جا رہا تھا۔ زکوۃ وصول کرنے والا اس کا ہاتھ کاٹ چکا تھا۔ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے)کہا کہ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھا تو ان کی آنکھیں بہہ پڑیں اور فرمایا: تجھ پر افسوس، تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: اے ابوبکر رضی اللہ عنہ ! اس نے مجھے فریضے (زکوٰۃ)کے پہلو میں پایا تو اس میں میرا ہاتھ کاٹ دیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ اسے مارے جس نے تیرا ہاتھ اس فریضے میں کاٹا جسے اس نے پہلو میں رکھا، اللہ کی قسم! بے شک میں اسے دیکھتا ہوں وہ تیس سے زیادہ فرائض میں خیانت کرتا ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تو یقینا سچا ہے تو میں لازماً تجھے اس سے بدلہ لے کر دوں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اسی گھر میں تھی جہاں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے گھرمیں اس کا ہاتھ کاٹے جانے سے پہلے تھی، وہ (چور)کھڑا ہوتا اور رات کو قیام کرتا، ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے بستر پر بے قرار پہلو بدلتے اور جب اس کی قرأت سنتے تو ان کی آنکھیں بہہ پڑتیں اورکہتے: اللہ اس کاہاتھ کاٹے، جس نے اس کاہاتھ کاٹا ہے، اسی دوران ہم تھے کہ رات کے وقت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا(ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیوی)آئیں، ان کے گھر چوری ہو گئی تھی، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے صبح کی نماز پڑھائی تو لوگوں میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا: بے شک قبیلے والے رات کو آئے ہیں، ان کی چوری ہو گئی ہے۔ سو تم ان کا سامان تلاش کرنے نکل جاؤ۔ کہتی ہیں کہ اس دست بریدہ نے ہم پر اجازت طلب کی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے اجازت دے دی اورمیں پس پردہ بیٹھی ہوئی تھی، اس نے کہا: اے ابوبکر! کیا رات کو نگرانی کرنے والا کوئی نہیں ؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں، تو اس نے اپنا صحیح ہاتھ اور کٹا ہوا ہاتھ اٹھایا اور کہا: اے اللہ! ابوبکر رضی اللہ عنہ کے چور کو شرم ناک کر دے، کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! دن ابھی چڑھا نہ تھا کہ چوری اسی کے گھر سے پکڑ لی گئی، اسے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا تو انہوں نے کہا: تجھ پر افسوس! اللہ کی قسم! تو اللہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، اسے لے جاؤ اور اس کا پاؤں کاٹ دو۔
تشریح : (1).... موطا کی روایت ہے کہ اس چور نے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا ہار چوری کیا تھا، جو ایک زرگر کے پاس ملا، جس نے بتایا کہ ایک دست بریدہ شخص نے اسے فروخت کیا تھا۔ (2) .... امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص متعدد بار چوری کرتا ہے، پھر بالاخر پکڑاجاتا ہے تو تمام چوریوں پر اس کا ایک ہاتھ ہی کاٹا جائے گا، اگر اس پر حد نہیں لگائی گئی اور اگر پہلے سے اس پر حد لگائی گئی ہے اور دوبارہ چوری کرتا ہے کہ جس پر ہاتھ کاٹنا بنتا ہے تو پھر کاٹا جائے گا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دوسری بار اس کا پاؤں کاٹنے کا حکم دیا۔ مؤطا کی مذکورہ بالا روایت میں ہے کہ جب وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اس سے قبل اس کا ایک ہاتھ اور پاؤں کاٹا جاچکا تھا۔ ایسی صورت میں پھر اس کا دوسراہاتھ کاٹا جائے گا۔ واللّٰہ اعلم
تخریج : موطا : 4؍159 مختصراً فی کتاب الجامع فی القطع : 30، سنن دارقطني : 3؍184، شرح مشکل الآثار : 1824۔ (1).... موطا کی روایت ہے کہ اس چور نے سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا ہار چوری کیا تھا، جو ایک زرگر کے پاس ملا، جس نے بتایا کہ ایک دست بریدہ شخص نے اسے فروخت کیا تھا۔ (2) .... امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص متعدد بار چوری کرتا ہے، پھر بالاخر پکڑاجاتا ہے تو تمام چوریوں پر اس کا ایک ہاتھ ہی کاٹا جائے گا، اگر اس پر حد نہیں لگائی گئی اور اگر پہلے سے اس پر حد لگائی گئی ہے اور دوبارہ چوری کرتا ہے کہ جس پر ہاتھ کاٹنا بنتا ہے تو پھر کاٹا جائے گا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دوسری بار اس کا پاؤں کاٹنے کا حکم دیا۔ مؤطا کی مذکورہ بالا روایت میں ہے کہ جب وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اس سے قبل اس کا ایک ہاتھ اور پاؤں کاٹا جاچکا تھا۔ ایسی صورت میں پھر اس کا دوسراہاتھ کاٹا جائے گا۔ واللّٰہ اعلم