مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 157

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ نَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي حَرِيسَةِ الْجَبَلِ؟ قَالَ: ((فِيهَا غَرَامَةٌ مِثلُهَا، وَجَلَدَاتُ نَكَالٍ، وَلَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنَ الْمَاشِيَةِ قَطْعٌ، إِلَّا مَا أَوَاهُ الْمُرَاحُ، فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ، فَفِيهِ الْقَطْعُ، وَلَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنَ الثَّمَرِ إِلَّا فِيمَا أَوَاهُ الْجَرِينُ فَمَا أُخِذَ مِنَ الْجَرِينِ فَبَلَغَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ فَفِيهِ الْقَطْعُ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 157

کتاب باب سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کہا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میدان کے بکریوں کے باڑے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں ان کی مثل چٹی (تاوان)ہے اور سزا کے کوڑے ہیں اور جانوروں میں سے کسی چیز میں ہاتھ نہیں کٹتا سوائے اس کے جسے باڑہ جگہ دے اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ جائے تو اس میں ہاتھ کٹتا ہے اور پھلوں میں سے کسی چیز میں (ہاتھ کٹنا)نہیں مگر اس میں جسے کھلیان (پھلوں کو اکٹھا کرنے کی جگہ)جگہ دے، جس نے کھلیان سے لیا اور وہ ڈھال کی قیمت کو پہنچ گیا تو اس میں ہاتھ کٹنا ہے۔
تشریح : (1).... چوری کا نصاب: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے، مگر دینار کے ایک چوتھائی یا زیادہ میں۔‘‘ (صحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقة ونصابها : 2؍1684۔) بعض روایات میں تین دراہم نصاب بیان ہوا ہے، وہ دینار کے چوتھائی حصے کے موافق ہے۔کیوں کہ اس وقت دینار بارہ دراہم کا ہوتا تھا۔ (دیکھیں : سنن ابي داؤد : 4375، عون المبود : 12؍34) (2) .... جو کھلی جگہ سے کسی جانور کو چرائے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، بلکہ اس جانور کا تاوان لیاجائے گا، جتنی کے اس جانور کی قیمت ہے اورساتھ بہ طور سزا اس شخص کو کوڑے مارے جائیں گے۔ہاں،ا گرجانور اپنے اصطبل یا باڑے میں بندھا ہو، وہاں سے چرائے اور اس کی قیمت دینارکے چوتھائی حصے کے برابر ہو تو پھر ہاتھ کاٹا جائے گا۔ (3) .... پھلوں کے متعلق بھی یہی اصول ہے۔ اگر باغ سے توڑ کرکھا لیا اور وہ بھوکا اور ضرورت مندہو توکوئی حرج نہیں، اگر ساتھ کپڑے میں باندھ کر لے جائے تو اسے تاوان دینا ہوگا۔ لیکن اگر پھل اپنے کھلیان میں محفوظ ہے اور وہاں سے چرایا گیا ہے تو دیکھا جائے گا کہ نصاب (دینار کے چوتھائی حصہ)کو پہنچا کے نہیں۔ اگر پہنچا ہے تو ہاتھ کاٹا جائے گا، ورنہ نہیں، اور اس صورت میں تاوان اور سزا ہوگی۔ (نیز دیکھئے، سنن ابي داؤد مع عون المعبود : 12؍36، 37، 38۔)
تخریج : مسند احمد (الفتح الرباني )15؍156، 16؍111، مستدرك حاکم 4؍381،سنن الکبریٰ بیهقي: 8؍278، سنن نسائي : 4959۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔ (1).... چوری کا نصاب: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے، مگر دینار کے ایک چوتھائی یا زیادہ میں۔‘‘ (صحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقة ونصابها : 2؍1684۔) بعض روایات میں تین دراہم نصاب بیان ہوا ہے، وہ دینار کے چوتھائی حصے کے موافق ہے۔کیوں کہ اس وقت دینار بارہ دراہم کا ہوتا تھا۔ (دیکھیں : سنن ابي داؤد : 4375، عون المبود : 12؍34) (2) .... جو کھلی جگہ سے کسی جانور کو چرائے تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، بلکہ اس جانور کا تاوان لیاجائے گا، جتنی کے اس جانور کی قیمت ہے اورساتھ بہ طور سزا اس شخص کو کوڑے مارے جائیں گے۔ہاں،ا گرجانور اپنے اصطبل یا باڑے میں بندھا ہو، وہاں سے چرائے اور اس کی قیمت دینارکے چوتھائی حصے کے برابر ہو تو پھر ہاتھ کاٹا جائے گا۔ (3) .... پھلوں کے متعلق بھی یہی اصول ہے۔ اگر باغ سے توڑ کرکھا لیا اور وہ بھوکا اور ضرورت مندہو توکوئی حرج نہیں، اگر ساتھ کپڑے میں باندھ کر لے جائے تو اسے تاوان دینا ہوگا۔ لیکن اگر پھل اپنے کھلیان میں محفوظ ہے اور وہاں سے چرایا گیا ہے تو دیکھا جائے گا کہ نصاب (دینار کے چوتھائی حصہ)کو پہنچا کے نہیں۔ اگر پہنچا ہے تو ہاتھ کاٹا جائے گا، ورنہ نہیں، اور اس صورت میں تاوان اور سزا ہوگی۔ (نیز دیکھئے، سنن ابي داؤد مع عون المعبود : 12؍36، 37، 38۔)