كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنِ الْحَجَّاجِ [ص:86] بْنِ أَرْطَأَةَ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ، قَالَ: سَأَلْتُ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ، عَنْ تَعْلِيقِ يَدِ السَّارِقِ فِي عُنُقِهِ؟ فَقَالَ: ((سُنَّةٌ، قَدْ قَطَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ سَارِقٍ وعَلَّقَ يَدَهُ فِي عُنُقِهِ))
کتاب
باب
عبد اللہ بن محریز نے کہا کہ میں نے فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے چور کے ہاتھ کے اس کی گردن میں لٹکانے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ سنت ہے۔ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا اوراس کا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا۔
تشریح :
(1).... امام منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بعض (علماء)نے فرمایا کہ گویا وہ (چور کا ہاتھ گردن میں لٹکانا)(تخویف اور اشارے کے باب سے ہے تاکہ اس کے ذریعے ڈرایا جائے، اگر حدیث ثابت ہوتی تو بہت اچھا اور درست ہوتا، لیکن ثابت نہیں ہے۔ (عون المبود :12؍389۔)
(2) .... ابن ھمام رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ چور کی گردن میں اس کا ہاتھ لٹکانا، مسنون عمل ہے، کیوں کہ آپ علیہ السلام نے اس کا حکم دیا اور ہمارے نزدیک یہ حکمران کی رائے پر موقوف ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے کہ ہر ایک وہ کہ جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کاٹا تو لٹکایا بھی، تاکہ سنت ہوجائے۔( تحفة الأحوذي : 2؍332۔)
(3) .... علامہ شوکانی نے نیل الأوطار میں کہا کہ سنن بیہقی میں ہے کہ بے شک علی رضی اللہ عنہ نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا، وہ (لوگ(اس کے پاس سے گزرے، تو اس کاہاتھ اس کی گردن میں لٹکا ہوا تھا۔( عون المعبود : 12؍59۔)
تخریج :
جامع ترمذي، کتاب الحدود، باب تعلیق ید السارق : 5؍7، سنن ابي داؤد، کتاب الحدود : 21، باب تعلیق ید السارق فی عنقه : 12؍89، مسند احمد (الفتح الرباني ): 16؍114، سنن دارقطني : 3؍208، سنن الکبریٰ بیهقي: 8؍275۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
(1).... امام منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : بعض (علماء)نے فرمایا کہ گویا وہ (چور کا ہاتھ گردن میں لٹکانا)(تخویف اور اشارے کے باب سے ہے تاکہ اس کے ذریعے ڈرایا جائے، اگر حدیث ثابت ہوتی تو بہت اچھا اور درست ہوتا، لیکن ثابت نہیں ہے۔ (عون المبود :12؍389۔)
(2) .... ابن ھمام رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ امام شافعی رحمہ اللہ اور احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ چور کی گردن میں اس کا ہاتھ لٹکانا، مسنون عمل ہے، کیوں کہ آپ علیہ السلام نے اس کا حکم دیا اور ہمارے نزدیک یہ حکمران کی رائے پر موقوف ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے کہ ہر ایک وہ کہ جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کاٹا تو لٹکایا بھی، تاکہ سنت ہوجائے۔( تحفة الأحوذي : 2؍332۔)
(3) .... علامہ شوکانی نے نیل الأوطار میں کہا کہ سنن بیہقی میں ہے کہ بے شک علی رضی اللہ عنہ نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا، وہ (لوگ(اس کے پاس سے گزرے، تو اس کاہاتھ اس کی گردن میں لٹکا ہوا تھا۔( عون المعبود : 12؍59۔)