كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ بْنُ مُوسَى، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ إِسْحَاقَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الْمُنْذِرِ مَوْلَى أَبِي ذَرٍّ، عَنْ أَبِي أُمَيَّةَ الْمَخْزُومِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلِصٍّ اعْتَرَفَ اعْتِرَافًا وَلَمْ يُوجَدْ مَعَهُ مَتَاعٌ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَا أَخَالُكَ سَرَقْتَ)) . قَالَ: بَلَى. قَالَ: ثُمَّ قَالَ: ((مَا أَخَالُكَ سَرَقْتَ)) . قَالَ: بَلَى. قَالَ: ((فَاذْهَبُوا بِهِ فَاقْطَعُوهُ، ثُمَّ جِيئُوا بِهِ))، فَقَطَعُوهُ ثُمَّ جَاءُوا بِهِ، فَقَالَ لَهُ: ((قُلْ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ)) . قَالَ: أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ. فَقَالَ: ((اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ))
کتاب
باب
سیدنا ابو امیہ مخزومی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور کو لایا گیا، جس نے اعتراف (جرم)کر لیا اور اس کے ساتھ کوئی سامان نہ پایا گیاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: ’’میرا نہیں خیال کہ تو نے چوری کی ہو۔‘‘ اس نے کہا: کیوں نہیں۔ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ’’میرا نہیں خیال کہ تو نے چوری کی ہو۔‘‘ اس نے کہا: کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اسے لے جاؤ اور اس کا ہاتھ کاٹ دو، پھر اسے لے کر آؤ۔‘‘ سو انہوں نے اس کا ہاتھ کاٹا،پھر اسے لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہہ میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں اوراس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں اوراس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ! اس کی توبہ قبول فرما لے۔‘‘
تشریح :
(1).... فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾(المائدہ : 38)
’’اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی سزا کے لیے جو دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘
(2) .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک فاطمہ مخزومیہ نامی عورت کا بھی ہاتھ کاٹا گیا تھا۔ جب سفارش کے لیے اسامہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا:
((وَایْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَهَا)) (صحیح بخاري: 6788۔)
’’اور اللہ کی قسم! اگر بے شک فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم چوری کرتی تو یقینا میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتے۔‘‘
(3) .... بعض لوگوں نے چوری کی حد باطل کرنے کے لیے بہت سے حیلے ایجاد کیے ہیں، ان میں سے دو حیلے ایسے ہیں جن کی موجودگی میں کسی چور کا ہاتھ کاٹا ہی نہیں جا سکتا۔ ایک یہ کہ عدالت میں جانے کے بعد مال مسروقہ کامالک چور کو چرائی ہوئی چیز ہبہ کر دے،یا اس کے ہاتھ بیچ دے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ حالاں کہ یہ صحیح حدیث کے صریح خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ چور پر شہادتوں کے ساتھ چوری کا جرم ثابت ہو جائے تو چور دعویٰ کر دے کہ مال مسروقہ میرا مال ہے، تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، خواہ وہ اپنی ملکیت کی کوئی دلیل پیش نہ کرے۔ یہ حیلہ لکھنے والے نے اس پر لکھا ہے کہ مخالف کی طرف سے اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ اس طرح تو کوئی چور بھی جھوٹا دعویٰ کرنے سے عاجز نہیں، ہر چور ہی مالک ہونے کا دعویٰ کر دے گا اور چوری کی حد سرے سے ختم ہوجائے گی۔ اس کا جواب اس نے یہ دیا ہے کہ یہ بات صرف علماء کو معلوم ہے، چوروں کومعلوم نہیں، اس لیے حد ختم ہونے کی کوئی فکر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے حیلوں کی وجہ سے بھی مسلم حکومتوں سے حدود اللہ ختم ہوئیں، جس کے نتیجے میں ظلم و ستم حد سے بڑھے، پھر اغیار مسلمانوں پر مسلط ہوگئے۔ اس کا علاج دوبارہ حدود اللہ کا صحیح نفاذ ہے۔
(4) .... امام شوکانی نیل الأوطار میں فرماتے ہیں کہ اس میں اس بات کی طرف مشروعیت کی دلیل ہے کہ جس پر حد لگائی گئی ہے، اسے استغفار اور توبہ کا حکم دیا جائے اور اس کی توبہ کی قبولیت کے لیے دعا کی جائے، نیز اسے وہ چیز سمجھائی اور تلقین کی جائے، جو حد کو ساقط کر دے۔( عون المعبود : 12؍30۔)
تخریج :
سنن نسائي، کتاب قطع السارق : 4877، سنن ابي داؤد : 4380، سنن ابن ماجة، کتاب الحدود : 2597، مسند أحمد : (الفتح الرباني ): 16؍113، التلخیص الحبیر: 4؍66، سنن دارمي، کتاب الحدود : 6، باب المعترف بالسرقة : 2؍95، سنن الکبریٰ بیهقي: 8؍276۔ محدث البانی نے اسے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
(1).... فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ﴾(المائدہ : 38)
’’اور جو چوری کرنے والا اور جو چوری کرنے والی ہے سو دونوں کے ہاتھ کاٹ دو، اس کی سزا کے لیے جو دونوں نے کمایا، اللہ کی طرف سے عبرت کے لیے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘
(2) .... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک فاطمہ مخزومیہ نامی عورت کا بھی ہاتھ کاٹا گیا تھا۔ جب سفارش کے لیے اسامہ رضی اللہ عنہ کو بھیجا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا تھا:
((وَایْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَهَا)) (صحیح بخاري: 6788۔)
’’اور اللہ کی قسم! اگر بے شک فاطمہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وسلم چوری کرتی تو یقینا میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتے۔‘‘
(3) .... بعض لوگوں نے چوری کی حد باطل کرنے کے لیے بہت سے حیلے ایجاد کیے ہیں، ان میں سے دو حیلے ایسے ہیں جن کی موجودگی میں کسی چور کا ہاتھ کاٹا ہی نہیں جا سکتا۔ ایک یہ کہ عدالت میں جانے کے بعد مال مسروقہ کامالک چور کو چرائی ہوئی چیز ہبہ کر دے،یا اس کے ہاتھ بیچ دے تو ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ حالاں کہ یہ صحیح حدیث کے صریح خلاف ہے۔ دوسرا یہ کہ چور پر شہادتوں کے ساتھ چوری کا جرم ثابت ہو جائے تو چور دعویٰ کر دے کہ مال مسروقہ میرا مال ہے، تو اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، خواہ وہ اپنی ملکیت کی کوئی دلیل پیش نہ کرے۔ یہ حیلہ لکھنے والے نے اس پر لکھا ہے کہ مخالف کی طرف سے اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ اس طرح تو کوئی چور بھی جھوٹا دعویٰ کرنے سے عاجز نہیں، ہر چور ہی مالک ہونے کا دعویٰ کر دے گا اور چوری کی حد سرے سے ختم ہوجائے گی۔ اس کا جواب اس نے یہ دیا ہے کہ یہ بات صرف علماء کو معلوم ہے، چوروں کومعلوم نہیں، اس لیے حد ختم ہونے کی کوئی فکر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے حیلوں کی وجہ سے بھی مسلم حکومتوں سے حدود اللہ ختم ہوئیں، جس کے نتیجے میں ظلم و ستم حد سے بڑھے، پھر اغیار مسلمانوں پر مسلط ہوگئے۔ اس کا علاج دوبارہ حدود اللہ کا صحیح نفاذ ہے۔
(4) .... امام شوکانی نیل الأوطار میں فرماتے ہیں کہ اس میں اس بات کی طرف مشروعیت کی دلیل ہے کہ جس پر حد لگائی گئی ہے، اسے استغفار اور توبہ کا حکم دیا جائے اور اس کی توبہ کی قبولیت کے لیے دعا کی جائے، نیز اسے وہ چیز سمجھائی اور تلقین کی جائے، جو حد کو ساقط کر دے۔( عون المعبود : 12؍30۔)