مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 15

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْغَطَفَانِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، مَعَ مَا يُدَّخَرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْبَغْيِ، وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 15

کتاب باب سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ظلم و سرکشی اور قطع تعلقی سے بڑھ کر کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اس کے مرتکب کی سزا جلد دنیا میں ہی دے دی جائے اور ساتھ آخرت میں بھی ذخیرہ کر دی جائے۔‘‘
تشریح : (1) .... بعض گناہ ایسے ہیں جن کی سزا دنیا میں ہی دے دی جاتی ہے، ان میں سے سب سے بڑے دو گناہ سرکشی اور قطع تعلقی ہیں جو اس حدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگر ایسا انسان ظلم و سرکشی اور قطع تعلقی سے توبہ تائب نہ ہوا تو دُنیا میں بھی عذاب سے دوچار ہوگا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ (السجدۃ : 21) ’’اور یقینا ہم انہیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔‘‘ (2) .... ظلم و سرکشی سے حق عصمت وعزت ختم ہو جاتا ہے،ا رشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ (الشوریٰ : 42) ’’بے شک ملامت کے لائق وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین پر ناحق سرکشی کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (3) .... رشتوں میں سب سے بڑا ماں باپ کا رشتہ ہے اس لیے ان سے قطع تعلقی بہت بڑی محرومی کا باعث ہے اور ان سے صلہ رحمی اجر عظیم کاموجب ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق والوں کے ساتھ والدین کے حق کو بیان فرمایا ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿ وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (النساء : 36) ’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ (4) .... اور حدیث میں ماں کا حق باپ کی نسبت تین گنا زیادہ بیان کیا گیا ہے۔( صحیح بخاري: 5971، صحیح مسلم : 2548۔) (5) .... صلہ رحمی کا شرعی ضابطہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتے دار کے ساتھ)احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے، بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے، جب اس سے قطع رحمی (بدسلوکی وغیرہ)کی جائے تو وہ صلہ رحمی (حسن سلوک)کرے۔‘‘ (صحیح بخاري: 5991۔) اس حدیث سے صلہ رحمی کے حقیقی تقاضے واضح ہوتے ہیں، جو رشتے دار ادب واحترام سے پیش آئیں اور آپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں، ظاہر بات ہے آپ بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کریں گے۔ لیکن یہ صلہ رحمی نہیں ہے، احسان کے بدلے احسان ہے۔ اس کے برعکس آپ کا ایک رشتے دار بداخلاق ہے، آپ سے بدسلوکی کرتا اور آپ سے تعلق توڑنے پر تلا رہتا ہے۔ (جیسا کہ جہالت کے یہ مظاہر ہمارے معاشرے میں ہیں (لیکن آپ صبر و تحمل اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں، بدسلوکی کا جواب حسن سلوک سے دیتے ہیں، ترک تعلق کی کوششوں کے مقابلے میں تعلق برقرار رکھتے ہیں، یہ ہے اصل صلہ رحمی، جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ خدمات، انا اور وقار کا مسئلہ ہے۔ اس جھوٹی انا کو شریعت کے تقاضوں پر قربان کر دینا بہت دل گردے کا کام ہے۔ لیکن کمال ایمان بھی یہ ہے کہ ایسا کیا جائے، ورنہ محض باہم مسکراہٹوں کے تبادلے میں تو کوئی کمال نہیں۔
تخریج : سنن أبي داؤد : 4902، سنن ابن ماجة: 4211، مسند احمد : 5؍36،38، الأدب المفرد، بخاري : 2؍50 (268(۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ (1) .... بعض گناہ ایسے ہیں جن کی سزا دنیا میں ہی دے دی جاتی ہے، ان میں سے سب سے بڑے دو گناہ سرکشی اور قطع تعلقی ہیں جو اس حدیث میں بیان کیے گئے ہیں۔ اگر ایسا انسان ظلم و سرکشی اور قطع تعلقی سے توبہ تائب نہ ہوا تو دُنیا میں بھی عذاب سے دوچار ہوگا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾ (السجدۃ : 21) ’’اور یقینا ہم انہیں قریب ترین عذاب کا کچھ حصہ سب سے بڑے عذاب سے پہلے ضرور چکھائیں گے، تاکہ وہ پلٹ آئیں۔‘‘ (2) .... ظلم و سرکشی سے حق عصمت وعزت ختم ہو جاتا ہے،ا رشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ (الشوریٰ : 42) ’’بے شک ملامت کے لائق وہ لوگ ہیں جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین پر ناحق سرکشی کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (3) .... رشتوں میں سب سے بڑا ماں باپ کا رشتہ ہے اس لیے ان سے قطع تعلقی بہت بڑی محرومی کا باعث ہے اور ان سے صلہ رحمی اجر عظیم کاموجب ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حق والوں کے ساتھ والدین کے حق کو بیان فرمایا ہے، ارشاد ربانی ہے: ﴿ وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا﴾ (النساء : 36) ’’اور تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو۔‘‘ (4) .... اور حدیث میں ماں کا حق باپ کی نسبت تین گنا زیادہ بیان کیا گیا ہے۔( صحیح بخاري: 5971، صحیح مسلم : 2548۔) (5) .... صلہ رحمی کا شرعی ضابطہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتے دار کے ساتھ)احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے، بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے، جب اس سے قطع رحمی (بدسلوکی وغیرہ)کی جائے تو وہ صلہ رحمی (حسن سلوک)کرے۔‘‘ (صحیح بخاري: 5991۔) اس حدیث سے صلہ رحمی کے حقیقی تقاضے واضح ہوتے ہیں، جو رشتے دار ادب واحترام سے پیش آئیں اور آپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں، ظاہر بات ہے آپ بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کریں گے۔ لیکن یہ صلہ رحمی نہیں ہے، احسان کے بدلے احسان ہے۔ اس کے برعکس آپ کا ایک رشتے دار بداخلاق ہے، آپ سے بدسلوکی کرتا اور آپ سے تعلق توڑنے پر تلا رہتا ہے۔ (جیسا کہ جہالت کے یہ مظاہر ہمارے معاشرے میں ہیں (لیکن آپ صبر و تحمل اور عفو و درگزر سے کام لیتے ہیں، بدسلوکی کا جواب حسن سلوک سے دیتے ہیں، ترک تعلق کی کوششوں کے مقابلے میں تعلق برقرار رکھتے ہیں، یہ ہے اصل صلہ رحمی، جس کا تقاضا اسلام کرتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ یہ خدمات، انا اور وقار کا مسئلہ ہے۔ اس جھوٹی انا کو شریعت کے تقاضوں پر قربان کر دینا بہت دل گردے کا کام ہے۔ لیکن کمال ایمان بھی یہ ہے کہ ایسا کیا جائے، ورنہ محض باہم مسکراہٹوں کے تبادلے میں تو کوئی کمال نہیں۔