مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 149

كِتَابُ بَابٌ حَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حِبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حَرَامِ بْنِ سَعْدِ بْنِ مُحَيِّصَةَ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ نَاقَةً لِلْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ دَخَلَتْ حَائِطَ قَوْمٍ فَأَفْسَدَتْ، فَقَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((إِنَّ حِفْظَ الْأَمْوَالِ عَلَى أَهْلِهَا بِالنَّهَارِ، وَإِنَّ عَلَى أَهْلِ الْمَاشِيَةِ مَا أَصَابَتِ الْمَاشِيَةُ بِاللَّيْلِ))

ترجمہ مسند عبد الله بن مبارك - حدیث 149

کتاب باب حرام بن سعد بن محیصہ اور سعید بن مسیب رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اونٹنی ایک قوم کے باغ میں داخل ہوئی ور اسے خراب دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ بے شک اموال کی حفاظت، دن کے وقت ان کے مالکوں پر ہے اور یقینا مویشیوں والوں پر وہ (تاوان)ہے جسے مویشی رات کو پہنچے۔
تشریح : علامہ عظیم آبادی فرماتے ہیں کہ ’’شرح السنہ‘‘ میں ہے: اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ مویشیوں نے دن کے وقت دوسرے کا جو مال خراب کیا ہے،تو مالکان پر کوئی تاوان نہیں ہے اور جو رات کو نقصان کیا ہے تو ان کے مالک تاوان دیں گے، کیوں کہ عرف عام میں یہی ہے کہ باغوں والے دن کے وقت ان کی حفاظت کرتے ہیں اور مویشیوں والے رات کو، جس نے اس عادت اور دستور کی مخالفت کی، وہ حفاظت کے رائج طریقے سے خارج ہے۔ یہ تب ہے جب مالک مویشیوں کے ساتھ نہ ہو۔ اگر مالک ان کے ساتھ ہو تو تاوان مالک کو ہی بھرنا پڑے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہ موقف ہے۔ جب کہ پہلا موقف راجح ہے۔ احناف کے نزدیک اگر مالک ساتھ نہ ہو تو اس پر کوئی تاوان نہیں، چاہے دن ہو یا رات۔( عون المعبود : 9؍350۔)
تخریج : سنن ابن ماجة: 2332، موطا، کتاب القضاء فی الضواري و الحریسة رقم : 37، سنن ابي داود، کتاب البیوع : 90، باب المراشي تفسد زرع القوم : 9؍483، سنن دارقطني، کتاب الحدود والدیات : 3؍154، 155، صحیح ابن حبان (الموارد)کتاب البیوع : 46 باب ما تفسد المواشي : 284، مسند أحمد : 4؍295، 5؍536، سنن بیهقي، کتاب السرقة باب ما یستدل علی ترك تضعیف الغرامة : 8؍279۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ علامہ عظیم آبادی فرماتے ہیں کہ ’’شرح السنہ‘‘ میں ہے: اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ مویشیوں نے دن کے وقت دوسرے کا جو مال خراب کیا ہے،تو مالکان پر کوئی تاوان نہیں ہے اور جو رات کو نقصان کیا ہے تو ان کے مالک تاوان دیں گے، کیوں کہ عرف عام میں یہی ہے کہ باغوں والے دن کے وقت ان کی حفاظت کرتے ہیں اور مویشیوں والے رات کو، جس نے اس عادت اور دستور کی مخالفت کی، وہ حفاظت کے رائج طریقے سے خارج ہے۔ یہ تب ہے جب مالک مویشیوں کے ساتھ نہ ہو۔ اگر مالک ان کے ساتھ ہو تو تاوان مالک کو ہی بھرنا پڑے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہ موقف ہے۔ جب کہ پہلا موقف راجح ہے۔ احناف کے نزدیک اگر مالک ساتھ نہ ہو تو اس پر کوئی تاوان نہیں، چاہے دن ہو یا رات۔( عون المعبود : 9؍350۔)